ملک بھر میں آئینی عدالتوں کے قیام، ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے اور دیگر امور سے متعلق 26ویں آئینی ترمیم کا مسودہ حکومت نے تیار کیا ہوا ہے، تاہم ترمیم کی منظوری کے لیے مطلوبہ نمبر پورے نہ ہونے کے باعث ستمبر میں ترمیم پیش نہ کی جا سکی، اب سپریم کورٹ آف پاکستان سے آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کے بعد کہا جا رہا ہے کہ مطلوبہ نمبر حاصل ہو گئے ہیں اور آئینی ترمیم ایس سی او کانفرنس کے بعد پیش کی جائے گی۔
آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو قومی اسمبلی کے 336 کے ایوان میں 224 اور سینیٹ کے 96 کے ایوان میں 64 ارکان کی حمایت درکار ہے، جبکہ اس وقت قومی اسمبلی میں 214 اور سینیٹ میں 54 ارکان کی حمایت حاصل ہے، قومی اسمبلی میں مزید 10 اور سینیٹ میں 10 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیے آئینی ترمیم کب پیش کی جائے گی؟ سینیٹر عرفان صدیقی نے بتا دیا
الیکشن کمیشن اگر مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ جاری کر دیتا ہے اور پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں دی جاتیں تو قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو جمیعت علمائے اسلام کی حمایت کے بغیر بھی دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی اور کل نشستوں کی تعداد 230 ہو جائے گی، جبکہ 336 کے ایوان میں دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔
اگر پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں دیگر پارٹیوں میں تقسیم نہیں کی جاتیں تو اس صورت میں جمعیت علمائے اسلام کی 8 نشستوں اور 2 پی ٹی آئی یا دیگر ارکان کی حمایت سے حکومت مطلوبہ نمبرز حاصل کر لے گی اور آئینی ترمیم منظور کرا لی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیے آئینی ترمیم کے لیے نمبر پورے ہوں گے، خواجہ محمد آصف
آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت یعنی 64 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہے۔ اس وقت حکمران اتحاد کو پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم کے 3 اور 4 آزاد ارکان سمیت مجموعی طور پر 54 ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ دو تہائی اکثریت پوری کرنے کے لیے ان کو مزید 10 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔
اس وقت سینیٹ میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 17، جمیعت علما اسلام کے 5، اے این پی کے 3، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین، مسلم لیگ ق کا ایک ایک جبکہ ایک آزاد رکن موجود ہے۔ ان تمام ارکان کی تعداد 31 ہے۔
یہ بھی پڑھیے متوقع آئینی ترمیم: پی ٹی آئی کو اپنے ارکان کے ٹوٹنے کا خطرہ، عہد نامہ لینا شروع کردیا
اگر حکومت سینیٹ میں جمعیت علمائے اسلام کے 5 ارکان سینیٹ کی حمایت حاصل بھی کر لیتی ہے تو اسے آئینی ترمیم کے لیے مزید 5 ارکان کی ضرورت ہو گی، اور 63اے کے فیصلے کے بعد اپوزیشن کے کوئی سے 5 ارکان کے ووٹوں سے سینیٹ میں بھی حکومت دو تہائی اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔
ملک بھر میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد کسی بھی جماعت کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ 93 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جن کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ پاکستان مسلم لیگ ن 75 جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی 54 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ متحدہ قومی موومنٹ کو 17، آزاد اراکین کو 9، جمعیت علما اسلام کو 5 اور مسلم لیگ ق کو 3 نشستیں حاصل ہوئیں۔ جبکہ مسلم لیگ ضیا، مجلس وحدت المسلمین، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو ایک، ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی۔
قومی اسمبلی کی پارٹی پوزیشن لسٹ کے مطابق حکمراں اتحاد میں ن لیگ کے پاس اس وقت 87 جنرل نشستیں، خواتین کی 20 اور 4 اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سمیت مجموعی طور پر 111 نشستیں ہیں۔
دیگر اتحادیوں میں پیپلز پارٹی کی قومی اسمبلی میں 54 جنرل، 13 خواتین اور 2 اقلیتی نشستوں کے ساتھ کل تعداد 69 ہے، ایم کیو ایم 5 مخصوص نشستوں کے ساتھ 22، مسلم لیگ ق کی 1 مخصوص نشست کے ساتھ 5 نشستیں، استحکام پاکستان پارٹی کی ایک مخصوص نشست کے ساتھ 4 نشستیں جبکہ مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی قومی اسمبلی میں ایک ایک نشست ہے۔
یہ بھی پڑھیے آئینی ترمیم کے لیے نمبر پورے نہیں تھے، تاہم فضل الرحمان سے بہت امید تھی، رانا ثنااللہ
الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی 60 خواتین اور 10 اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں سے بالترتیب 40 اور 7 نشستیں پہلے سے سیاسی جماعتوں کو الاٹ کردی تھیں کیونکہ اس وقت تک سنی اتحاد کونسل کے کوٹے میں آنے والی 23 نشستوں کا فیصلہ نہیں ہوسکا تھا۔ الیکشن کمیشن اب اگر پی ٹی آئی کے کوٹے کی 23 مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو دے دیتا ہے تو 14 نشستیں ن لیگ، 6 نشستیں پیپلز پارٹی جبکہ 3 نشستیں جمیعت علما اسلام کو دی جائیں گی۔