میری بھی یہی رائے ہے کہ عدلیہ آزاد اور غیر جانبدار ہو، جسٹس جمال مندوخیل کا منصور علی شاہ کو جوابی خط

ہفتہ 14 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے سینیئر جج اور عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے سربراہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے جسٹس منصور علی شاہ کے ججز تعیناتی کے رولز، سخت میکنزم سے متعلق خط کا جواب دے دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس جمال مندوخیل کے نام بھی خط لکھ دیا

ہفتہ کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کے نام جوابی خط میں ججز کی تقرری کے لیے قائم کمیٹی کے سربراہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے لکھا کہ میری بھی یہی رائے ہے کہ آئین کی منشا ہے کہ عدلیہ آزاد اور غیر جانبدار ہو۔

انہوں نے اپنے جوابی خط میں لکھا کہ’ عدلیہ کے ممبران قابل اور دیانتدار ہونے چاہییں، اسی مقصد کے لیے رولز بنا رہے ہیں، آپ کی تجاویز پہلے بھی زیر غور لائے، کل والا خط بھی دیکھیں گے، آئندہ بھی آپ اپنی تجاویز، رولز کمیٹی کو دے سکتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے جسٹس منصور علی شاہ کو مزید لکھا کہ ’آپ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں بھی بات کی ہے لیکن اس کا جواب نہیں دوں گا کیوں کہ درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ میرے علم میں ہے کہ  26 ویں ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن پھر تشکیل دیا گیا، کمیشن نے چیف جسٹس کو رولز بنانے کے لیے کمیٹی تشکیل کا اختیار دیا اور رولز بنانے کے لیے میری سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے خط میں لکھا کہ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ خط میں آپ کی طرف سے جن تجاویز، ضروریات کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں سے زیادہ تر کو پہلے ہی مسودہ قواعد میں شامل کیا جاچکا ہے ، جو میں نے آپ کے خط کے جواب سے پہلے ذاتی طور پر آپ کے ساتھ شیئر کیا تھا۔

مزید پڑھیں:جسٹس منصورعلی شاہ کے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پرتحفظات، جوڈیشل کمیشن کو خط لکھ دیا

اپنے جواب میں جسٹس مندوخیل نے جے سی پی کمیٹی کے 2 اجلاسوں کا بھی ذکر کیا۔ کمیٹی میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، تحریک انصاف کے سینیٹر سید علی ظفر، پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق حامد نائیک اور اے ایس سی اختر حسین شامل ہیں۔ اجلاسوں کا ذکر کرتے ہوئے کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ انہوں نے جمعے کے خط سے قبل ان کے ساتھ تجاویز یا آئینی تقاضوں پر تبادلہ کیا تھا۔

جسٹس مندوخیل نے لکھا کہ ’برائے مہربانی نوٹ کریں کہ  مجھے کمیٹی کو صرف مسودہ قواعد تجویز کرنے اور 21 دسمبر، 2024 کو ہونے والی اپنی آئندہ میٹنگ میں اس کی حتمی منظوری کے لیے کمیشن کے سامنے پیش کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ ان کے ساتھی جج نے کمیشن کی جانب سے قواعد کی منظوری کے بعد امیدواروں کو لاہور ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں ترقی دینے کی تجویز پیش کی ہے۔

انہوں نے جسٹس منصور علی شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’ میں آپ کی تجاویز کو سراہتا ہوں اور ان کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ بھی پختہ خیال ہے کہ یہ آئین کا مینڈیٹ ہے کہ عدلیہ کو آزاد اور غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ عدلیہ کے ارکان کو قابل اور ایماندار افراد ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس مقصد کے لیے مسودہ قواعد بنانے کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی مطلوبہ مقصد کے حصول کے لیے اس طرح کے قواعد تیار کرتے وقت ’بہترین میکانزم‘ تیار کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ سپریم کورٹ کے جج نے جسٹس منصور علی شاہ کو یقین دلایا کہ 16 دسمبر (پیر) کو ہونے والی اگلی میٹنگ میں ان کی تجاویز پر غور کیا جائے گا۔

یہ بھی  پڑھیں:جوڈیشل کمیشن کا 6 دسمبر کا اجلاس مؤخر کیا جائے، جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط

واضح رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس جمال مندوخیل کے نام لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ ہماری عدلیہ اپنی تاریخ کے کمزور ترین دور سے گزر رہی ہے اور انتظامیہ کی مداخلت کے خطرات کسی بھی دور سےزیادہ ہیں۔

جمعہ کو ججز تعیناتی کے لیے رولز بنانے کے معاملے پر سپریم کورٹ کے سینیئر پیونی جج، جسٹس منصور علی شاہ نے رولز میکنگ (قواعد ساز) کمیٹی کے سربراہ جسٹس جمال خان مندوخیل کے نام بھی 2 صفحات پر مشتمل خط لکھ دیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس جمال خان مندوخیل کے نام خط میں لکھا ہے کہ آئینی عدالتوں میں ججوں کی تقرری کا معاملہ ملک میں عدلیہ کی آزادی، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

انہوں نے لکھا کہ آئین کے آرٹیکل 175اے کی شق 4 کے تحت ججوں کی تقرری کے لیے طریقہ کار طے کرنا جوڈیشل کمیشن کا اختیار ہے، اس لیے تقرری کے رولز کے بغیر کوئی بھی تعیناتی غیر آئینی ہو گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ ججز تعیناتی میں عدلیہ کا اہم کردار ہوتا تھا، 26 ویں ترمیم کے بعد یہ توازن بگڑ چکا ہے، اب ججز تعیناتی میں ایگزیکٹو کا کردار بڑھ چکا ہے۔اس تبدیلی سے عدالتوں میں سیاسی تعیناتیوں کا خطرہ ہے اور ایسے جج تعینات ہو سکتے ہیں جو نظریاتی طور پر قانون کی حکمرانی پر یقین نہ رکھتے ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp