40 ارب روپے کے کوہستان کرپشن کیس میں نیب نے 8 اہم ملزمان گرفتار کر لیے

ہفتہ 19 جولائی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

قومی احتساب بیورو (نیب) نے کوہستان کے 40 ارب روپے کے میگا کرپشن اسکینڈل میں ملوث 8 مرکزی ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔

انگریزی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق گرفتار افراد میں شفیق الرحمان قریشی (ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ آفیسر)، محمد ریاض (سابق بینک کیشیئر اور فرضی کنٹریکٹر)، فضل حسین (آڈیٹر، اکاؤنٹنٹ جنرل آفس پشاور)، طاہر تنویر (سابق بینک مینیجر)، دراج خان (کنٹریکٹر)، عامر سعید (کنٹریکٹر)، صوبیدار (کنٹریکٹر)، اور محمد ایوب (کنٹریکٹر) شامل ہیں۔نیب نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا ہے اور مزید گرفتاریاں متوقع ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:کوہستان کرپشن اسکینڈل: 94 کروڑ روپے مالیت کی لگژری گاڑیاں، اربوں کی جائیدادیں برآمد، اہم گرفتاریوں کا امکان

ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے مواصلات و تعمیرات (C&W) ڈیپارٹمنٹ کے افسران سے ملی بھگت کر کے جعلی کمپنیوں اور بے نامی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی مالی بدعنوانی، جعلی بلنگ اور منی لانڈرنگ کی۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق شفیق الرحمان قریشی نے اپر کوہستان میں جعلی ترقیاتی منصوبوں کے تحت بجٹ ہیڈ G-10113 سے جعلی خزانے کے چیکس کی منظوری اور دستخط کیے۔ اس نے جان بوجھ کر ایسے منصوبوں کے لیے 33 ارب روپے سے زائد کے چیکس جاری کیے جن پر کوئی حقیقی کام نہیں ہوا۔ اس بدلے اُسے C&W ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ کلرک قیصر اقبال سے فی چیک 2 لاکھ روپے رشوت کے طور پر ملے۔

ملزم محمد ریاض، جو پہلے بینک کیشیئر تھا، بعد ازاں استعفیٰ دے کر فرضی کنٹریکٹر بن گیا۔ اس نے ہلال کنسٹرکشن، اعتماد کنسٹرکشن، کوہستان ہلز کنسٹرکشن کمپنی، اور ریاض ایسوسی ایٹس کے نام سے جعلی کمپنیاں رجسٹر کروا کر 11.15 ارب روپے سے زائد کی رقوم وصول کیں۔ اس نے رشتہ داروں اور دوستوں کے نام پر بینک اکاؤنٹس کھول کر منی لانڈرنگ کی۔

اسی طرح آڈیٹر فضل حسین، جو AG آفس پشاور میں تعینات تھا، ڈپازٹ ورک کی تصدیقی کمیٹی کا رکن تھا۔ اس نے بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے قیصر اقبال سے ملی بھگت کی اور ایک کروڑ 5 لاکھ روپے سے زائد کی رقم بطور رشوت وصول کی، جو نقد اور بینک ٹرانسفر کے ذریعے دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں:کوہستان میگا کرپشن اسکینڈل: نیب خیبرپختونخوا نے اعظم سواتی کو طلب کرلیا

سابق بینک مینیجر طاہر تنویر نے اپنے بھائی کے نام پر فرضی کمپنی عیسیٰ انجینئرنگ کمپنی کے تحت اکاؤنٹ کھولا اور حکومتی چیکوں کے ذریعے 50 کروڑ روپے سے زائد کی رقم بغیر کسی حقیقی کام کے حاصل کی۔ اس نے نیب کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جس پر اسے گرفتار کر لیا گیا۔

ملزم عامر سعید، جو عامر سعید اینڈ کمپنی کا مالک ہے، کے مختلف اکاؤنٹس میں ایک ارب روپے سے زائد کی رقوم منتقل ہوئیں۔ وہ منی لانڈرنگ میں شریک رہا اور نیب کے ساتھ تعاون نہیں کیا، اہم معلومات چھپائیں، جس کے باعث اسے بھی گرفتار کیا گیا۔

کنٹریکٹر دراج خان، ہالی ووڈ کنسٹرکشن کمپنی کا مالک، بھی بڑے پیمانے پر غیر قانونی رقوم کی منتقلی میں ملوث رہا۔ اس کی کمپنی کو 1.10 ارب روپے سے زائد کی جعلی ادائیگیاں ہوئیں، جو بعد ازاں اس نے ذاتی اکاؤنٹس میں منتقل کیں اور بے نامی جائیدادوں میں سرمایہ کاری کی۔ وہ نیب کے سمنز کے باوجود پیش نہ ہوا، شواہد ضائع کیے اور متعدد اکاؤنٹس میں رقوم منتقل کر دیں۔

صوبیدار ، جو صوبیدار اینڈ سنز کا مالک ہے، کو 37 کروڑ روپے سے زائد کی رقم ملی۔ اس نے اپنی کمپنی کے ذریعے رقوم نکلوائیں اور دیگر ملزمان سے ملی بھگت کر کے منی لانڈرنگ کی۔ نیب کی تحقیقات میں عدم تعاون پر اسے بھی گرفتار کیا گیا۔

محمد ایوب، ایک شیل کنٹریکٹر، نے جعلی منصوبوں کے تحت 3 ارب روپے سے زائد کے حکومتی فنڈز حاصل کیے، جن سے اس نے لگژری جائیدادیں اور گاڑیاں خریدیں۔ اس نے کئی بینک اکاؤنٹس مختلف برانچز میں کھولے اور زرداد اینڈ برادرز، پٹن ایسوسی ایٹس، اور عبدالعزیز جیسی کمپنیوں کے اکاؤنٹس بھی خود آپریٹ کیے۔ نیب نے اس کی جائیدادیں اور اکاؤنٹس کا سراغ لگا لیا ہے۔ وہ بھی شواہد مٹانے اور رقوم چھپانے کی کوشش میں تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp