شدید بمباری اور مسلسل اسرائیلی محاصرے کے باوجود غزہ کے سینکڑوں فلسطینی طلبہ نے ثانوی تعلیم کے امتحان میں شرکت کی۔
غزہ کی وزارتِ تعلیم نے اس ماہ کے آغاز میں اعلان کیا تھا کہ ہفتے کے روز یہ امتحان لیا جائے گا جو کہ اسرائیل کی جانب سے اکتوبر 2023 میں غزہ پر شروع کی گئی جنگ کے بعد پہلا سرکاری امتحان ہے۔ امتحان الیکٹرانک طور پر ایک خاص سافٹ ویئر کے ذریعے لیا جا رہا ہے اور وزارت کے مطابق تمام تکنیکی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں تاکہ طلبہ کو کسی مشکل کا سامنا نہ ہو۔
کچھ طلبہ نے یہ امتحان گھروں پر بیٹھ کر دیا جبکہ دیگر نے مختلف مقامات پر امتحان دیا۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ: جنگ کے باعث کتنے طلبا تعلیم سے محروم؟
عرب میڈیا کے مطابق جنگی حالات، بغیر کلاس رومز، کتابوں اور ناکافی انٹرنیٹ کے باوجود، غزہ کے طلبہ اپنا مستقبل بچانے کے لیے امتحان دے رہے ہیں۔
امتحان دینے والے بیشتر طلبہ کو اس وقت یونیورسٹی میں ہونا چاہیے تھا مگر جنگ کی وجہ سے تعلیمی ادارے تباہ ہونے کی وجہ سے وہ ثانوی سطح پر ہی رکے ہوئے ہیں۔
غزہ کی وزارتِ تعلیم نے ان حالات کے پیشِ نظر ایک جدید آن لائن پلیٹ فارم متعارف کروایا ہے تاکہ طلبہ گھروں یا قریبی محفوظ مقامات سے امتحان دے سکیں۔
الجزیرہ کے مطابق اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین کے منصوبہ بندی کے ڈائریکٹر سام روز نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ غزہ کی پٹی میں 50 لاکھ سے زائد طلبا 8 ماہ سے تعلیم حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی، بنگلہ دیش کے متعدد تعلیمی اداروں میں سرگرمیاں معطل
یو این آر ڈبلیو اے کے پلاننگ ڈائریکٹر روز نے بتایا کہ غزہ بھر میں ہائی اسکول کے 39 ہزار طلبا یونیورسٹی کے امتحانات نہیں دے سکے جس سے ہمارے دکھ و درد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں 50 لاکھ سے زیادہ بچے 8 ماہ سے تعلیم کے حق سے محروم ہیں اور ہر چیز کو ایک طرف چھوڑیں ان بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہ ملنا انتہائی افسوسناک ہے۔
دریں اثنا فلسطینی حکومت کی جانب سے دیے گئے بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ غزہ میں ہائی اسکول کے تقریباً 40 ہزار طلبا یونیورسٹی داخلہ امتحان میں نہیں بیٹھ سکے۔