کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے انسانوں سے زیادہ اہم گدھے؟

منگل 19 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مشکل حالات میں پاکستان کی معیثت کو سہارا دینے والے گمنام ہیرو ز میں گدھے بھی شامل ہیں جو کوئلے کو کان سے نکال کر سونا بنا دیتے ہیں۔ وی نیوز نے ضلع چکوال کی تحصیل چوآسیدن شاہ میں واقع کوئلے کی مختلف کانوں کا دورہ کیا جس دوران پتا چلا کہ بہت سے گدھے اورانسان کئی نسلوں سے کان کنی کر رہے ہیں۔ مگر ان گدھوں کی اوسط عمرعام گدھوں کی نسبت بہت کم ہے۔

گدھے نہ آئیں تو مزدور کو بھی اجرت نہیں ملتی

اپنے والد کی جگہ یہاں مزدوری کرنے والے کان کن عبداللہ نے وی نیوز سے بات چیت کے دوران بتایا کہ وہ گزشتہ 15 سال سے روزانہ 10 سے 11 گھنٹے کوئلے کی کان میں کام کرتے آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ  ان کے کام میں گدھوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر گدھا بیمار ہو یا کسی اور وجہ سے کام کے لیے دستیاب نہ ہوتو کان کن بھی کوئلہ نکالنے کا کام نہیں کرسکتے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک گدھا روزانہ تقریبا ایک ٹن کوئلہ نکال لیتا ہے۔ گدھوں کےلیے اس سے زیادہ کوئلہ کان سے نکالنا ممکن نہیں کیونکہ یہ کان 16 سے 17سو فٹ گہری ہے۔ یہ سفر خطرناک اور تھکا دینے والا ہوتا ہے اس لیے دن میں ایک گدھا صرف 10 سے 12 چکر ہی لگا پاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس پہلے 12 گدھے تھے جن میں سے 5 مر گئے جبکہ باقی رہ جانے والوں میں سے بھی صرف 4 کام کے قابل ہیں۔ باقی 3 یا تو زخمی ہیں یا بیمار اور کمزور۔ کوئلے کی کان میں گدھوں کے زخمی ہونے کی بڑی وجہ کان کی چڑھائی ہے جسے چڑھانے کے لیے ٹپالی (گدھوں کو چلانے والا)  ان کو چھڑی سے پیٹ بھی رہا ہوتا ہے۔ جب گدھے کا پاؤں پھسل جاتا ہے تو یہ گوڈا (لنگڑا) ہو جاتا ہے۔

عبداللہ کا کہنا تھا کہ گدھا زخمی ہونے پر ہم ڈاکٹر کو فون کرتے ہیں۔ وہ اسپرے یا دوائی لاتے ہیں، کبھی وہ انجکشن یا ڈرپ بھی لگاتے ہیں۔ معمولی نوعیت کی بیماری میں علاج کے لیے وہ  دیسی ٹوٹکےبھی استعمال کرتے ہیں۔

گدھے کو اسپتال لے کر جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ بیمار گدھے کو کبھی اسپتال نہیں لے کر گئے کیونکہ دشوار گزار پہاڑی راستے کے باعث گدھے کو لے جانا تقریبا ناممکن ہے۔

گدھے کی خوراک کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہ اسے پھک (چاول کا چھلکا) اور چنے کھلاتے ہیں۔ 4 گدھوں کی خوراک پرروزانہ تقریباً  15  سو سے 2 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ پھک کا  15 سو روپے کا بورا ہے جبکہ چنے کا  50 کلو کا تھیلا  12 ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ایک دن میں ایک گدھا تقریبا ایک ہزار روپے کما کر دیتا ہے جس  میں گزارا بہت مشکل ہے کیونکہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔

کوئلے کے اندر کام کرنے والے ورکرز کو دستیاب سہولیات کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ان سے بالکل مطمئن نہیں ہیں۔ سرکاری طور پر ہماری رہائش، بستر، ڈاکٹر کی سہولت بالکل بھی نہیں ہے۔ ہم سب خرچ اپنی جیب سے کرتے ہیں۔

عبداللہ کے والد بھی کوئلے کے کان کن تھے۔ مگر اب وہ بیماری کے سبب یہ کام نہیں کرسکتے۔ان کا کہنا تھا کہ کان کنی بہت مشکل کام ہے اور مزدور سمیت گدھوں کی صحت پر بری طرح اثرانداز ہوتا ہے۔

گدھے 2 سال بعد مر جاتے ہیں

مردان کے رہائشی سراج الدین  بھی چکوال کی ان کانوں میں سنہ 2004 سے مزدوری کر رہے ہیں۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ وہ کوئلے کی کٹائی کرتے ہیں جبکہ گدھے اسے کان سے باہر لانے میں مدد کرتے ہیں۔ ان کا تمام تر دارومداد گدھوں پر ہے کیونکہ جس دن گدھے کام پر نہ آئیں تو مزدوروں کو بھی اجرت نہیں ملتی۔

انہوں نے گدھوں کی زندگی کے حوالے سے سوال کے جواب میں بتایا کہ کوئلے کی کان میں گدھے زیادہ سے زیادہ 2 سال کام کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد وہ مر جاتے ہیں  اور اگر زندہ رہیں بھی تو کام کے قابل نہیں رہتے۔

مزدوروں کو دستیاب علاج معالجے کی سہولیات بارے میں سراج الدین کا کہنا تھا کہ جب وہ بیمار پڑتے ہیں تو ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے کمپنی والے چٹ (ریفرل) دیتے ہیں۔ اگرچہ اس چٹ پر لکھا ہوتا ہے کہ ان کا مناسب علاج کریں لیکن اسپتال والے ہمیشہ 2 یا 3 اقسام کی کل 6 گولیاں دے کر کر ٹرخا دیتے ہیں۔ کبھی اس میں سیرپ بھی شامل ہوتا ہے۔ ان مزدوروں کا علاج قریبی شہر میں ہوتا ہے اور اگر وہ چٹ نہ لے کر جائیں تو اسپتال انہیں یہ 6 گولیاں بھی نہیں دیتا۔

جانوروں کی صحت اور علاج کے بارے ان کا کہنا تھا کہ یہاں (کوئلے کی کان) کئی بار بروک اسپتال کے ڈاکٹرزآتے ہیں جو مفت دوائی دیتے ہیں۔  لیکن جب گدھوں کا مالک قریبی شہر سے کسی پرائیویٹ ڈاکٹرکو بلاتا ہے تو وہ 6 سے 7 ہزار روپے فیس لیتے ہیں۔ گدھے کے کھانے اورعلاج کا تمام خرچ خوراک خرکار/ میٹ (گدھوں کا مالک) برداشت کرتا ہے۔

گھر جانے کے متعلق سوال کی جواب میں انکا کہنا تھا کہ ان کا گھر مردان میں ہے اور تقریبا ڈھائی سے 3 ماہ بعد وہ اپنے گھر جاتے ہیں۔ کوئلے کی کان میں کام کرنے والوں کی نہ ہونے کے برابر تعداد اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہاں رہائش پذیر ہے۔ تقریبا تمام مزدور اپنے گھر والوں سے دور ملازمت پر مجبور ہیں۔

کوئلے کی کان میں گدھوں کی زندگی اور بیماریاں

ڈاکٹر رب نواز ضلع چکوال میں بروک ہاسپٹل فار اینیملزمیں بطور کمیونٹی اینیمل ہیلتھ آفیسرکان کنی میں استعمال ہونے والے گدھوں کے حقوق کے لیے کام کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا  کہ گدھا  4 سے  5 سال کی عمر میں جوان ہوتا ہے اور اسے اسی عمر میں خریدا جاتا ہے۔ یہ  3 سے 5 سال تک کوئلے کی کان میں استعمال کے لیے کارآمد رہتا ہے۔ اس کے بعد اس کی زندگی سخت کام کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے۔ اگر اس کا موازنہ خشت بھٹہ پر کام کرنے والے گدھوں سے کریں تو ان کی عمر وہاں کام کرنے والے گدھوں سے بہت کم ہوتی ہے۔

ڈاکٹر رب نواز نے بتایا کہ گدھوں کی عام بیماروں میں بدن پر زخم آنا، لنگڑا پن، آنکھوں کی بیماریاں، پیٹ کی بندش، بدن کی کمزوری اور سانس سے متعلقہ امراض شامل ہیں۔ خطرناک چڑھائی کی وجہ سے گدھوں کی ہڈیوں کے جوڑ کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں۔

خطرناک دیسی ٹوٹکوں کا استعمال

ڈاکٹر رب نوازنے بتایا کہ کوئلے کی کانیں سخت ترین دشوارگزار پہاڑی علاقوں میں واقع ہیں جہاں  طبی سہولیات کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس وجہ سے جانور کے مالکان دیسی ٹوٹکے استعمال کرتے ہیں جو کہ الٹا نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ مثلا سرخ مرچ کھلانا، بیٹری سیل کا پاؤڈر زخموں پر لگانا، سرخ چائے پلانا، زخموں پر مہندی لگانا، لنگڑا ہونے کی صورت میں گرم لوہے سے داغنا وغیرہ۔ اس کے علاوہ علاج کے غرض سے گدھے کے ناک میں تیل یا گھی بھی ڈالاجاتا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ اکثر گدھوں کی ناک کو کاٹ کر کھلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ کوئلے کی کان میں آسانی سے سانس لے سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام طریقے خطرناک ہیں اور ان سے علاج ممکن نہیں۔ ان کا ادارہ زیادہ سے زیادہ افراد کو آگاہی فراہم  کرنے کے لیے کام کررہا ہے جس میں  دیسی ٹوٹکوں سے باز رہنے اور کسی ماہر ڈاکٹر کی خدمات لینے کے لیے آمادہ کرنا بھی شامل ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کا ادارہ گدھوں کی خوراک، بہتر رہائش، کام کے اوقات اور دیگر امور میں مفت رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے ضلع چکوال میں مختلف کلسٹرز بنارکھے ہیں جہاں ان کے ماہر ڈاکٹرز کی ٹیم اور ایمبولینسزموجود رہتی ہے۔ وہ گدھوں کے لیے بورے اور پٹے وغیرہ مفت فراہم کرتے ہیں۔

جانورں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی تجاویز

سید نعیم عباس جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم بروک پاکستان کے ایڈووکیسی منیجر ہیں۔  ان کا کہنا ہے کہ ان جانوروں اور ان سے جڑی افراد کی ویلفیئر کےلیے حکومت کو کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں 3 طرح کے اقدامات بہت ضروری ہیں۔ ان میں پہلی ترجیح پر لائیوسٹاک ڈیپارٹمنٹ کو چاہیے کہ وہ اپنی سروسز پہاڑوں میں کام کرنے والے جانوروں تک بھی پہنچائیں۔ یہ بھی ہماری معیثت کا اہم جز ہے اور بہت سے لوگوں کا روزگاران پر منحصر ہے۔ کول مائنز اوننرز ایسوسی ایشن کو اپنا مثبت ادا کردار ادا کرتے ہوئے وہاں ان جانوروں کے لیے بنیادی ضروریات فراہم کرنی چاہییں  جس میں موسمی شدت سے بچنے کے لیے مناسب رہائش ، پینے کا صاف پانی، اور  فسٹ ایڈ کٹس بھی شامل ہیں۔ مائنز لیبر ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ جہاں انسانوں کی ویلفیئر کے لیے اچھے پروگرامات متعارف کراتا ہے، وہیں اسے کان کنی میں استعمال ہونے والے جانوروں کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہییں کیونکہ کان کنی میں ان کا اہم کردار ہے۔ اگر یہ جانور بیمار ہوں یا مرجائیں تو  کان کنی سے وابستہ افراد قرضے کے بوجھ تلے دب جاتے ہیںَ۔

جانوروں کے حقوق سے متعلقہ پاکستان میں قوانین

پاکستان میں نوآبادیاتی دور کے قوانین آج بھی رائج ہیں جسے پریوینشن آف کروئلٹی ٹو اینیملز ایکٹ 1890 کہا جاتا ہے۔ اس ایکٹ میں وفاقی حکومت نے سنہ 2018 میں اسلام آباد کی حد تک ترامیم کیں لیکن باقی صوبوں میں ابھی اتنی ترامیم بھی نہیں ہوسکیں۔لائیو اسٹاک نے سول سوسائٹی کی مدد سے اینیمل ویلفیئر بل ڈرافٹ کیا ہے۔ جو سیاسی گہماگہمی کے باعث وزارت قانون کو نہیں بھیجا جاسکا۔

گدھوں کی مدد سے کوئلہ نکالا کیسے جاتا ہے؟

ضلع چکوال میں 5 سو سے زائد کوئلے کی کانیں ہیں جن میں 8 ہزار سے زائد گدھے کام کرتے ہیں۔ کوئلے کی کان سے کوئلہ باہر نکالنے کے لئے صرف 5 فیصد کانوں میں مکینیکل ٹرالیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

کوئلے کی کان میں ایک ٹیم میں کان کن/ کول کٹر، ٹپالی (گدھوں کو چلانے والا)، لوڈر(گدھوں پر مال لادنے والا) اور 4 سے 5 گدھوں کی جوڑی شامل ہوتی ہے۔ ان افراد پر مشتمل مختلف ٹیمیں ایک ہی کان کے مختلف حصوں سے کوئلہ نکالتی ہیں۔ کول کٹر کوئلے کو کاٹتا جاتا ہے جبکہ لوڈر کوئلے کو گدھوں پرموجود بوریوں میں لوڈ کرتا جاتا ہے۔ ہر گدھے پر 60 سے  70 کلو کوئلہ لوڈ کیا جاتا ہے۔ ٹپالی کا کام کوئلے سے لدے گدھوں کو کان سے باہرلا کر مخصوص جگہ پر اتارنا ہے۔ اس کے بعد وہ ان  4 سے  5 گدھوں کو واپس کان میں لے جاتا ہے اور یوں یہ سرکل 8 سے 11 گھنٹے تک جاری رہتا ہے۔ ایک عام کوئلے کی کان کی لمبائی ایک ہزار سے 5 ہزار فٹ اور گہرائی 2  سے 3 سو فٹ تک ہوتی ہے جس میں گدھے اور ٹپالی زیادہ سے زیادہ  12 چکر لگاکر ایک ٹن کے قریب کوئلہ باہرلانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

کان کن نہ صرف کوئلے کو کاٹتے جاتے ہیں بلکہ ہر 3  سے 4 فٹ بعد لکڑی کا دروازہ (پلر) بھی لگاتے ہیں تاکہ کان بیٹھ نہ جائے۔ اس کے لیے لکڑی ٹھیکہ دار فراہم کرتا ہے۔

کول کٹراور لوڈر دن میں 8 سے 10 گھنٹے کوئلے کی کان میں ہی گزارتے ہیں جہاں وہ کھانا اور پینے کا پانی ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ کان میں تازہ ہوا کی فراہمی اور گیسوں کے بھرنے سے بچنے کے لیے عام طور پر کان کے 2  ٹنل ہوتے ہیں۔ ایک ٹنل سے ہوا اندر داخل ہوتی ہے اور دوسرے سے باہر نکلتی ہے، ان میں پائپ لائن کی مدد سے بھی ہوا کا نظام بنایا جاتا ہے۔ کوئلے کی کانوں میں بجلی کے ساتھ بیٹری لیمپ کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔

ہر جمعرات کو کوئلے میں کام کرنے والے تمام افراد کو کوئلے کے وزن اور پیمائش کے حساب سے اجرت دی جاتی ہے۔ یہ اجرت عام طور پر ایک ہزار روپے فی ٹن ہے۔ کان کنوں اور گدھوں کی رہائش، خوراک اورعلاج  خرکار کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

حفاظتی سامان اور انتظامات نہ ہونے کے باعث کوئلے کی کانوں میں ہونے والے حادثات معمول کا حصہ ہیں۔ کانوں میں حادثات کی بڑی وجہ ان میں زہریلی گیس کا بھرجانا اورکانوں کا بیٹھ جانا ہے۔ جس سے نہ صرف انسانوں کا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے بلکہ گدھے بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور ایک وقت میں کوئلے کی کان میں انسانوں کے مقابلے میں گدھوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp