پاکستان مسلم لیگ ن نے ایم کیو ایم پاکستان، جمیعت علماء اسلام پاکستان، مسلم لیگ فنکشنل اور جی ڈی اے میں شامل دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابات میں جانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اے این پی کے ساتھ بھی پاکستان مسلم لیگ ن کے مذاکرات جاری ہیں۔
پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ جن 2 جماعتوں کے ساتھ ن لیگ کوئی سیٹ ایڈجسمنٹ نہیں کر رہی ان میں جماعت اسلامی اور تحریک لبیک پاکستان شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی کی جانب سے انفرادی حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان ہو چکا ہے جس کے باعث اس کی کسی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی کوشش ہے کہ وہ اور اس کے اتحادی سندھ میں حکومت قائم کریں جس کے لیے اس نے تیاریاں بھی شروع کردی ہیں۔
لاڑکانہ میں جے یو آئی کا جلسہ اور نواز شریف کو شرکت کی دعوت
جمیعت علماء اسلام ف نے 20 نومبر کو لاڑکانہ میں عوامی قوت دکھانے کا اعلان کیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جلسے میں قائد پاکستان مسلم لیگ ن میاں محمد نواز شریف کو شرکت کی دعوت بھی دی جا چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر میاں محمد نواز شریف اس جلسے میں شرکت نہ کرسکے تو ن لیگ کی اعلیٰ سطحی قیادت ضرور شرکت کرے گی۔
ن لیگ ذرائع کے مطابق میاں محمد نواز شریف پہلے مرحلے میں بلوچستان کا رخ کریں گے جس کے باعث امکان ہے کہ وہ لاڑکانہ جلسے میں شریک نہ ہو پائیں۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ اس مرتبہ قائد میاں محمد نواز شریف کی صوبہ سندھ پر خصوصی توجہ ہے اور بلوچستان کے بعد اگلا مرحلہ سندھ ہی ہوگا اور اس دوران قوی امکان ہے کہ سندھ سے بڑی تعداد میں سیاسی شخصیات پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کریں۔
ن لیگ کا ایم کیو ایم سے ہاتھ ملانے کا مقصد کیا ہے؟
ذرائع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم پاکستان کی خصوصاً کراچی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا مقصد مستقبل میں ن لیگ اور حمایتی جماعتوں کو مرکز میں اقتدار ملنے کی صورت میں کراچی کی ترقی کے لیے اقدامات کرنا ہے۔
پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر لیکن!
پاکستان پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتیں سندھ میں پیپلز پارٹی کی گدی پر قبضہ جمانے اکٹھی تو ہو رہی ہیں لیکن 2 اہم جماعتیں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی اس اتحاد کا حصہ نہیں ہیں باوجود اس کے کہ بلدیاتی انتخابات میں دونوں جماعتوں کی کراچی میں کارکردگی بہترین رہی۔
سیاسی ماہرین کے مطابق اس وقت لگ یہ رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا انتخابات میں حصہ لینا مشکل ہے اور اگر لیا بھی تو سیٹوں کے اعتبار سے کوئی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے گی لیکن کراچی کی حد تک اگر دیکھا جائے تو خطروں کے کھلاڑی کے سامنے کراچی کی 2 بڑی جماعتیں موجود ہیں جن سے مجبوری میں اتحاد بھی ممکن ہو سکتا ہے۔
کیا پیپلز پارٹی کی مشکلات بڑھ رہی ہیں؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے سامنے اس وقت بہت سے چیلنجز ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے بھی بڑا چیلنج بیوروکریسی میں افسران کے تبادلوں کی شکل میں موجود ہے جو کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کیے جا رہے ہیں۔
انتخابات میں پیپلز پارٹی اپنی منیجمنٹ کے ساتھ پرسکون رہتی ہے لیکن اگر وہ ہی تبدیل ہو جائے تو مسائل بڑھ سکتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی بھی اس بساط پر بہت احتیاط سے چال چل رہی ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ محدود آپشنز کی موجودگی میں پیپلزپارٹی کیا کرتی ہے۔
کیا سندھ میں پیپلز پارٹی کو شکست ہو سکتی ہے؟
سندھ میں پیپلز پارٹی کو شکست دینا ایک خواب تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ سیاسی ماہرین کے مطابق قومی سیاست کی عینک سے دیکھا جائے تو پاکستان مسلم لیگ ن اور سندھ کی دیگر جماعتوں کا بننے والا اتحاد خاصا پر اثر دکھائی دیتا ہے لیکن پھر بھی لگتا یہ ہے کہ یہ اتحاد سندھ کی سیاست میں شاید ہی کوئی بڑی تبدیلی لا سکے کیوں کہ جن جماعتوں کا پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف اتحاد ہوا ہے وہ اس سے قبل بھی مختلف شکلوں میں پیپلز پارٹی کے خلاف متحد دکھائی دیے ہیں لیکن اس سے پیپلز پارٹی کو کوئی ڈینٹ نہیں لگ سکا۔
اس بار ہواؤں کا رخ پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف ہونے کے ناتے سندھ میں کسی بڑی تبدیلی کا کہیں نہ کہیں امکان ضرور موجود ہے اور اگر واقعی ایسا ہوا تو یہ بہت بڑا اپ سیٹ ہوگا۔