ترکیہ نے ایک بار پھر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کا دو ریاستی حل ناگزیر ہے۔
ترکیہ کے صدر نے برلن میں جرمن چانسلر اولاف شولز کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں کہاکہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان فوجی تصادم نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ فلسطینی تنازع کو 1967 کی سرحدوں کے اندر دو ریاستی اصول کی بنیاد پر حل کیا جانا چاہیے۔
دوسری جانب ترکیہ کے اقوام متحدہ میں مستقل نمائندہ سیدات اونال نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کی ضرورت سے نا تو انکار کیا جا سکتا ہے اور نا ہی اس کام میں تاخیر کی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے اقوام متحدہ جنرل کمیٹی کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کے موضوع پر منعقد اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ترکیہ بین الحکومتی مذاکرات میں آسٹریا اور کویت کی بحیثیت سہولت کار تعیناتی کا خیر مقدم کرتا ہے اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں اصلاحات کے موضوع پر رائے شماری کے لیے بحیرہ اسود اقتصادی تعاون گروپ کے جاری کردہ بیانات کی حمایت کرتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نا تو فلسطین میں فائر بندی کروا سکی ہے اور نہ ہی فلسطینی عوام کے ناقابل تعریف مصائب کا مداوا کر سکی ہے۔
ترکیہ کے مستقل مندوب نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل کے اصلاحاتی مرحلے کا کونسل کی موجودہ کوتاہیوں کو دُور کرنا ضروری ہے۔ اس عمل کو سلامتی کونسل کو اس قابل بنانا چاہیے کہ کونسل منصفانہ اور جمہوری اہداف کو موئثر اور بااختیار شکل میں عمل میں لا سکے۔
انہوں نےبحیرہ اسود اقتصادی گروپ کے موقف کا حوالہ دیتے ہوئے کہ ویٹو کا اختیار ہو یا نہ ہو دائمی رکنیت کی حیثیت غیر جمہوری ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کوصرف دائروی اور علاقائی نمائندگی کی بنیاد پر کیے گئے انتخابات کے ذریعےمنتخب شدہ اراکین کے ساتھ وسعت دی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ نظریاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو ویٹو کا اختیار ختم یا پھر کم سے کم کردیا جانا چاہیے۔
ترکیہ کے سفیر نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل کمیٹی اور سلامتی کونسل کے درمیان روابط اور تعاون میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔ اصلاحاتی عمل میں پیش رفت کے لیے تمام رکن ممالک کے درمیان تعمیری ربط کی ضرورت ہے اور اس رابطے کا مشروع ترین پلیٹ فورم بین الحکومتی مذاکراتی پلیٹ فورم ہے۔ ترکیہ بین الحکومتی مذاکراتی عمل میں فعال شرکت کرے گا اور باہمی مفاہمت کے لیے مشترکہ نقطہ نظر پر اتفاق کے لیے کردار ادا کرنے کی کوشش کرے گا۔