آخری اوور چل رہا تھا ۔ کمرے میں موجود سب کی سانسیں اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے ہی اٹکی ہوئی تھیں کہ ایک دم جھپاکے سے ٹی وی کی اسکرین کالی اور کمرے میں اندھیرا چھا گیا۔
اس کمبخت لائٹ کو بھی ابھی ہی جانا تھا۔
ہم سارے کزنز اور دوست غصّے میں بُڑ بڑُاتے ہوئے گاڑیوں میں ٹھس، ٹھسا کر اپنے تایا کے گھر بجلی موجود ہونے کی موہوم سی آس لیے گاڑیاں بھگاتے ہوئے پہنچے جو ہمارے گھر سے غالباً 4 منٹ کی دوری پر واقع تھا۔
خلاف توقع وہاں بجلی موجود تھی۔ جس کو جہاں جگہ ملی وہیں پسر گیا اور نظریں ٹی وی اسکرین پر گاڑھ دیں۔ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان 1992کے ورلڈ کپ کا فائنل اپنے آخری مراحل میں تھا۔ پورا محلہ، پورا شہر بلکہ پورا پاکستان اس ورلڈ کپ کے فائنل میں پاکستان کی جیت کا متمنی تھا۔ کیوں نہ ہوتا؟ اتنے سارے اپ سیٹ کے نتیجے میں پاکستان فائنل تک پہنچا تھا جب کہ اس کے ورلڈ کپ سے باہر ہونے کے امکانات بہت زیادہ تھے۔
مجھے آج تک یہ میچ یاد ہے۔ بے فکری کا زمانہ تھا۔ موج مستی ، دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق اور گھومنا پھرنا عروج پر تھا، شاید اسی لیے مجھے بھی کرکٹ سے دلچسپی پیدا ہوگئی تھی کہ تمام کزنز اور دوستوں کا ٹولہ کرکٹ کا شیدائی تھا۔
ورلڈ کپ کا یہ فائنل میرا آخری میچ تھا جو میں نے شروع سے آخر تک ٹکٹکی باندھے دیکھا۔ 31 سال ہونے کو ہیں کہ اس کے بعد پھر کوئی میچ اس طرح دیکھا نہ ہی دیکھنے کی ایسی کوئی خواہش دل میں جاگی۔
کرکٹ سے ایک نسبت سعید انور کی وجہ سے بھی رہی جو پاکستانی ٹیم کے ایک بڑے کھلاڑی رہے، وہ ہمارے ہی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ محلے کے لڑکوں کے ساتھ ہی گلی میں کرکٹ کھیلتے کھیلتے نیشنل ٹیم کا حصہ بنے اور پھر کرکٹ کی دُنیا میں چھاتے چلے گئے۔
اچھے بھلے بیٹسمین ہوا کرتے تھے کہ اچانک کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔ چونکہ بڑے کھلاڑی بن گئے تھے سو ہمارے مڈل کلاس محلے سے نکل کر پوش ایریا میں رہائش اختیار کر لی تھی۔ کچھ عرصے بعد خبر سامنے آئی کہ کرکٹ چھوڑنے کی وجہ بیٹی کی ناگہانی موت بنی۔
یہ کرکٹ کے سنہرے دور کی آخری جھلکیاں تھیں۔ جس طرح ملک کے دیگر ادارے تباہی کی جانب گامزن ہوئے بالکل اسی طرح ہر گزرتے سال کھیلوں پر بھی تیزی سے زوال آتا گیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے پاکستانی ہاکی ٹیم جو دنیا کی بہترین ٹیموں میں شمار ہوا کرتی تھی روبہ زوال ہونے لگی۔
اسکوائش جس کا دنیا بھر میں طوطی بولتا تھا۔ جس کھیل میں روشن خان، ہاشم خان، جہانگیر خان، جان شیر خان اور اعظم خان جیسے اعلیٰ پائے کے کھلاڑیوں نے پاکستان کا دنیا میں نام روشن کیا آج اس کھیل میں کوئی بڑا کھلاڑی نظر نہیں آتا۔
پاکستان نے کرکٹ کا بھی سنہرا دور دیکھا ہے جب کھلاڑیوں سے لے کر اس کی سلیکشن کمیٹی اور پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئر مین سمیت کرکٹ کی نفسیات سے ناصرف واقف تھے بلکہ کھلاڑیوں کی تربیت، رکھ رکھاؤ اور بات چیت کے انداز تک کی نوک پلک درست کرنے پر بھی توجہ دیتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ اُس وقت کے کھلاڑی انٹرویو دیتے ہوئے آئیں بائیں شائیں نہیں بلکہ دلائل کے ساتھ اور مربوط لب و لہجے میں اپنی بات کہتے تھے۔
ابھی پچھلے ہفتے کی بات ہے، کرکٹ کے سابق کھلاڑی عبدالرزاق نے بھارتی اداکارہ ایشوریا رائے کا ذکر کرتے ہوئے ایک معیوب بات کہی جس پر ان کے ہمنوا شاہد آفریدی اور عمر گل نے طنزیہ ہنسی کے ساتھ تالیاں بجاتے ہوئے اس بے ہودہ بات کی تائید کی۔
عبدالرزاق کے اس ’گھٹیا‘ جملے، جس کا سیاق و سباق سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، پر جب ہر طرف سے لعن طعن کی گئی اور تینوں کو سخت تندوتیز حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہوا کا رخ اپنے خلاف دیکھ کر تینوں سابقہ کھلاڑیوں کو معذرت کرنا پڑی۔
ایک متنازع معاملے کی گرد ابھی بیٹھی بھی نہ تھی کہ ہمارے سینیئر سابقہ کھلاڑی اور دورِ حاضر کے کمینٹیٹر رمیض راجہ کا بھی ایک بیہودہ شو میں نسل پرست اور جنسی امتیاز والے جملوں پر قہقوں کی ویڈیو دُنیا بھر کے میڈیا پر چھائی رہی۔
ویسٹ انڈیز کے معروف کھلاڑی ووین رچرڈ اور آرٹ فلموں کی اداکارہ نینا گپتا کے مابین رشتے پر بھونڈے مذاق پیش کرنے والی خاتون کے ساتھ قہقہے لگاتے رمیز راجہ اور عمرگل اور آفریدی میں اس وقت کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں اور کیسے ہمارے کھلاڑیوں کے دماغ میں ایسا گند بھر گیا ہے کہ پبلک فورم پر بیٹھ کر وہ بنا سوچے سمجھے ایسے ریمارکس دے دیتے ہیں یا ایسے فقروں پر تالیاں یا باچھیں کھلا لیتے ہیں کہ جس سے پوری قوم کے سر شرم سے جھک جائیں۔
دیکھا جائے تو اس سے قبل بھی ہمارے کرکٹر جن میں شاہد آفریدی سرفہرست ہیں عورتوں کے بارے میں نازیبا کلمات کئی بار ادا کرچکے ہیں۔ چلیں رزاق، عمر گل اور آفریدی نے اپنے رویے کی خلاصی کر دی ہے لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟
المیہ یہ ہے کہ ایشوریا رائے سے معذرت ایک عورت کی تذلیل کرنے پر نہیں کی گئی ہے۔ بات چونکہ اس ایشوریا رائے بچن کی ہے جو ایک سپر اسٹار امیتابھ بچن کی بہو، سابقہ مس ورلڈ ، مشہور زمانہ ماڈل اور اداکارہ ہے تو معافی مانگے بنا چارہ ہی نہ تھا۔
سچ پوچھیے تو اس سارے واقعہ پر رتی برابر بھی حیران ہونے کی ضرورت نہیں کہ پہلے کون سے ہمارے کرکٹرز نے علم و فضیلت کے جھنڈے گاڑھے ہیں جو آج ان کے ایسے نازیبا جملوں پر ہمیں حیرانی و پریشانی لاحق ہوگئی۔
ان بیچاروں کو تو 2 جملے بھی صحیح تلفظ کے ساتھ بولنے میں دقت پیش آتی ہے تو آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ جنہوں نے زندگی میں کبھی کوئی کتاب اٹھا کر بھی نہ دیکھی ہو تو وہ نسائی تحریکوں یا فنون لطیفہ کے موضوعات کے بارے کوئی جانکاری کیسے رکھتے ہوں گے؟۔
ہمارے ان کرکٹرز نے اگر کبھی ایشوریا رائے کو دنیا کے مختلف اور ٹاپ گریڈ چینلوں کے میزبانوں کو لاجواب کرتے سنا ہوتا تو انہیں اندازہ ہوتا کہ دنیا کی ایک خوبصورت ادکارہ و فنکارہ جو رقص، اداکاری، کامیڈی کرنے کے علاوہ دماغی صلاحیتوں سے مالا مال اور اپنے برجستہ جملوں میں ثانی نہیں رکھتی وہ انہیں ایک جملے میں ہی چت کرسکتی ہے۔
ایشوریا رائے ہو یا ماریہ واسطی یا عفت رحیم جیسی مضبوط اعصاب والی اور سمجھدار فنکار خواتین ایسے حضرات کو 2 منٹ کی گفتگو میں مات دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ایسی پسماندہ اور عورت دشمن سوچ صرف ہمارے کھلاڑیوں کی نہیں ہے بلکہ ہمارے سماج کے 99 فیصد مردوں کی سوچ اس سے مختلف ہرگز نہیں۔
بظاہر باشعور، تعلیم یافتہ اور روشن خیالی کا بھاشن دینے والے بھی خواتین کے حوالے سے افواہیں اڑانے اور کردار کشی کرنے سے باز نہیں آتے۔کیوں؟ اس لیے کہ ایک باشعور اور مضبوط عورت کو برداشت کرنا ابھی ہمارے سماج کے مردوں نے سیکھا ہی نہیں ہے۔
ہمارے کھلاڑیوں کے بارے میں تو ہمیں کم از کم اتنا تو ادراک ہے کہ ان کی ذہنی نشونما اور تربیت میں شدید کمی رہ گئی ہے ہاں البتہ کرکٹ جیسے اہم کھیل سے وابستگی نے انہیں شہرت ضرور فراہم کردی ہے۔وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ مائنڈ سیٹ تبدیل کیا جائے ورنہ ہمارے اسٹارز ہی ہمیں دنیا کے سامنے شرمندہ کرتے رہیں گے۔
یعنی بقول مصطفی خان شیفتہ
ہم طالب شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے ، تو کیا نام نہ ہوگا