جب بھی 2 فریق اکھاڑے میں اترتے ہیں تو کامیابی ایک کے قدم چومتی ہے اور ایک کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر جس فریق کی جیت کا یقین سب کو ہو، جب وہ ہار جائے تو اسے تکلیف کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے اور بھارت کے ساتھ آج احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں کچھ ایسا ہی ہوا۔
پہلے میچ سے سیمی فائنل تک لگاتار 10 میچوں میں ناقابلِ شکست رہنے والی بھارتی ٹیم کے بارے میں شاید ہی کسی کا خیال تھا کہ وہ فائنل ہار جائے گی، ایسا لگ رہا تھا کہ نتیجہ لکھا جاچکا ہے بس رسمی کارروائی ہونی ہے، لیکن آسٹریلیا نے آج انہونی کو ہونی کردیا اور سچ یہ ہے کہ یہ کام صرف آسٹریلوی ٹیم ہی کرسکتی تھی۔
میچ شروع ہونے سے قبل ہی بھارت میں اس بات کا چرچہ تھا کہ آج 2003 ورلڈ کپ فائنل کی شکست کا بدلہ لیا جائے گا، مگر 20 سال بعد مقام تو بدل گیا مگر ورلڈ کپ فائنل کا نتیجہ وہی رہا، اور اس نتیجے کی صورت میں آسٹریلیا 6 بار ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم بن گئی۔
آج ایک مزیدار اتفاق بھی ہوا، جب ٹاس ہوا تو روہت شرما نے سکّہ دُور اچھالنے کے بجائے قریب ہی اچھال دیا اور بدقسمتی سے وہ ان کے حق میں نہیں گیا۔ آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا، لیکن ٹاس جیتنا بھارت کے لیے زیادہ نقصان کا سبب نہیں بنا کیونکہ روہت شرما نے واضح کردیا تھا کہ اگر وہ ٹاس جیتتے تو وہ بھی بیٹنگ ہی کرتے۔
یہ بات ابتدائی 10 اوورز میں ٹھیک بھی لگ رہی تھی کیونکہ روہت شرما آج اپنی ٹیم کو روایتی تیز آغاز فراہم کیا اور جب ابتدائی 10 اوورز میں محض ایک وکٹ کے نقصان پر 80 رنز بن جائیں تو بھلا کون کہہ سکتا ہے کہ پہلے بیٹنگ نہیں کرنی چاہیے تھی۔ لیکن پھر صورتحال تبدیل ہوئی اور ایسی تبدیل ہوئی کہ جس ٹیم نے 10 اوور میں 80 رنز بنالیے تھے وہ 50 اوورز کے اختتام پر صرف 240 رنز ہی بناسکی اور اس کے 9 کھلاڑی آؤٹ ہوگئے تھے۔
یہاں آسٹریلوی بولرز، خصوصاً کپتان پیٹ کمنز کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے جنہوں نے ناصرف شریاس ایئر اور ویرات کوہلی کی اہمت وکٹیں حاصل کیں بلکہ 10 اوورز میں صرف 34 رنز بھی دیے۔ یہاں آسٹریلوی فیلڈرز کی شان میں بات کرنا بھی گستاخی ہوگی جنہوں نے پوری اننگ میں شاندار فیلڈنگ کا مظاہرہ کیا اور اگر یہ کہا جائے کہ اپنی فیلڈنگ کی وجہ سے آسٹریلیا نے کم از کم 25 سے 30 رنز روکے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔
لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے کیونکہ اگر بھارت جیسی بیٹنگ لائن اپ 240 رنز پر محدود ہوجائے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وکٹ بیٹنگ کے لیے کتنی مشکل ہوگی اور آسٹریلیا کے لیے کسی بھی طور پر اس ہدف کا تعاقب کرنا آسان نہیں ہوگا۔
اگرچہ آسٹریلیا کے اوپنرز نے تیز آغاز کرنے کی کوشش کی مگر بھارتی بولرز نے محض 47 کے اسکور پر 3 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھا کر اس بات کی تصدیق کردی تھی کہ وہ آسٹریلیا کو اتنی آسانی سے چھٹی بار ورلڈ کپ جیتنے کا موقع فراہم نہیں کریں گے بلکہ تجزیہ کار تو اس موقعے پر کہنا شروع ہوگئے تھے کہ اگر بھارت کو ایک، دو وکٹیں جلد مل گئیں تو آسٹریلیا کے لیے جیتنا مشکل ہوجائے گا۔
مگر پھر ٹریوس ہیڈ اور مارنس لبوشین نے ایسی تمام باتوں کو ایک طرف کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی باتیں اپنے پاس رکھیے، ہم جیت بھی رہے ہیں اور آسانی کے ساتھ بھی جیت رہے ہیں۔ اگرچہ بالکل آخری لمحات میں ٹریوس ہیڈ آؤٹ ہوگئے تھے مگر نتیجے میں کچھ فرق نہ پڑا اور آسٹریلیا نے ورلڈ کپ میں ناقابلِ شکست رہنے والی بھارتی ٹیم کو 6 وکٹوں سے شکست دے دی اور عالمی چیمپیئن بننے کی بھارتی خواہش پر پانی پھیر دیا۔
اس میچ کے ہیرو ٹریوس ہیڈ ہیں جنہوں نے 137 رنز کی فاتحانہ اننگ کھیلی۔ وہ ورلڈ کپ فائنل میں سینچری اسکور کرنے والے مجموعی طور پر چھٹے جبکہ تیسرے آسٹریلوی کھلاڑی ہیں۔
سب سے پہلے 1975 میں ویسٹ انڈیز کے کلائیو لائیڈ نے سینچری اسکور کی، پھر 1979 میں ویسٹ انڈیز کے ہی ویو رچڑڈز نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ اس کے بعد 1996 کے ورلڈ کپ فائنل میں سری لنکا کے ارونڈا ڈی سلوا نے سینچری اسکور کی، اور پھر 2003 اور 2007 کے آسٹریلیا کے رکی پونٹنگ اور ایڈم گلکرسٹ نے یہ اعزاز حاصل کیا۔ اگرچہ 2011 کے ورلڈ کپ فائنل میں سری لنکا کے مہیلا جے وردھنے نے بھی بھارت کے خلاف سینچری بنائی مگر بدقسمتی سے سری لنکا وہ میچ جیت نہیں سکی تھی۔
آخر میں مجھے یہ بات کہنے دیجیے کہ فائنل میں اگرچہ بھارت کو شکست ہوگئی لیکن اگر ٹورنامنٹ کی بہترین ٹیم کا کوئی اعزاز ہوتا تو یقینی طور پر وہ اسی بھارتی ٹیم کو ملتا جو پورے ایونٹ میں ناقابلِ شکست رہی اور شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا۔