کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم شہر ہے جو اس وقت بے ہنگم اور بے قابو ٹریفک کی زد میں ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بے ہنگم ٹریفک کی بڑی ذمہ داری سڑک پر گاڑی چلانے والی عوام کی بھی بنتی ہے جنہیں گاڑی چلاتے وقت صبر سے کام ہوئے ٹریفک کے اصول و قوانین پیش نظر رکھنے چاہئیں۔لیکن اب یوں لگتا ہے کہ عوام کا صبر جواب دے گیا ہے اس لئے کوئی بھی شخص ٹریفک جام کی صورت میں صبر و تحمل کا مظاہر ہ کرنے کی بجائے ہر قسم کے ضابطوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سب سے پہلے نکلنے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں مزید خرابیاں پیدا ہوتی ہے اور لوگ گھنٹوں ٹریفک جام میں بے یار و مددگار پھنسے رہتے ہیں۔
سب سے بڑی خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی شخص اپنی لین کو توڑتے ہوئے دوسری لین میں آجائے یا کسی مرکزی شاہراہ پر غلط سمت(رانگ سائیڈ) سے گاڑی ڈرائیو کرتا وارد ہو۔اس شہر میں غلط سمت سے آنے والے کسی شخص کے چہرے پر کبھی کوئی شرمندگی دیکھنے کونہیں ملتی بلکہ الٹا وہ صحیح سمت والے کو آنکھیں دکھا رہا ہو گا کہ جیسے رانگ سائڈ سے آنا اس کا حق تھا۔ غرض یہ کہ ہر قسم کی خلاف ورزی کرنا ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔اب جس شخص کو گاڑی چلانے کے بنیادی اصول ہی نہ معلوم ہوں تو وہ پھر ایسے ہی گاڑی چلائے گا جیسے ہم اپنی عوام کو کراچی کی سڑکوں پر چلاتے دیکھتے ہیں۔
ٹریفک کے بنیاد ی قوانین سے ناواقفیت
ہمارے ہاں اگر کسی بھی گاڑی چلانے والے سے اگر ڈرائیونگ کے چند بنیادی اصول ہی پوچھ لیں کہ لین کیا ہوتی ہے، سیدھے ہاتھ اور الٹے ہاتھ پر کون سی گاڑیاں چلائی جاتی ہیں، اوور ٹیک کس سمت سے کیا جاتا ہے، ہارن کہاں بجانا اور کہاں نہیں بجانا چاہیے ، ہیڈ لائٹ کی بیم کب آن کرنا چاہیے ، سڑ ک پر ”زیبرا کراسنگ“ کس لئے بنائی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ تو شاید ان تمام باتوں کا جواب پانچ فیصد افراد ہی دے پائیں، باقی ننانوے فیصد بغلیں جھانکیں لگیں گے۔
ہر تیسرا شخص گاڑی چلاتے ہوئے موبائل فون استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ کسی کی کال سننا تو الگ بات ہے، لوگ گاڑی چلاتے ہوئے موبائل پر فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا ایپس استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ اس میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے جن میں سے ہر تیسرے شخص کے منہ کے آگے گاڑی چلاتے ہوئے بھی موبائل ہوتا ہے جس سے نہ صرف وہ کسی پیدل چلنے والے کی جان خطرے میں ڈالتے ہیں بلکہ خود ان کی زندگی بھی داو پر لگی رہتی ہے۔
نہ صرف کار وغیرہ بلکہ اب تو موٹر سائیکل سوار بھی چلتی موٹر سائیکل پر موبائل استعمال کر رہے ہوتے ہیں، لیکن کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں کیونکہ ٹریفک اہلکار اپنی ”ڈیوٹی“ کو پورا کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔پاکستان اور خصوصاکراچی ماشاءاللہ ایسا شہر ہے جہاں آپ کو ہر قسم کی ٹریفک کی خلاف ورزیاں دیکھنے کو ملیں گی اور ان میں سے بیشتر ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی عین ناک کے نیچے ہوتی نظر آئیں گی لیکن وہ ان خلاف ورزیوں کو روکنے میں بے بس نظر آتے ہیں۔
ٹریفک اہلکاروں کا رویہ
اب بات کر تے ہیں ان کی کہ جن کا کام اس بے ہنگم ٹریفک کو ڈسپلن میں لانا ہے، یعنی ٹریفک پولیس جو اپنے سامنے ان تمام خلاف ورزیوں کو دیکھتے ہوئے بھی سڑکوں پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ لیکن ا ن کی یہ خاموشی صرف”ٹریفک مینجمنٹ“ تک ہی محدود ہے اپنے دن کے ”ٹارگٹ“ پورا کرنے کے لیے ان سے زیادہ پھرتیاں کوئی اور نہیں دکھا سکتا۔ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ کراچی میں چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ جس میں رکشہ، ٹیکسی، واٹر ٹینکر، ڈمپر، ٹرالر، منی بس وغیرہ شامل ہیں، اس سے ماہانہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔
دلیری کی انتہا ہے کہ سرکاری اہلکار اب بھتے کی رقم تک اپنے جاز کیش یا ایزی پیسہ اکاونٹ پر منگوا رہے ہوتے ہیں یعنی انہیں رشوت کا پیسہ لیتے ہوئے کسی ثبوت کے رہ جانے کا خوف بھی نہیں رہا۔ اور تو اور عام شہری بھی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے، سڑک کنارے کھڑے اہلکارو ں کو”لین دین“ کرتے دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے بے شمار واقعات ہوئے جب کسی اہلکار کی سڑک کنارے رشوت لیتے ہوئے وڈیوز وائرل ہوئیں لیکن اس کے باوجود بھی بناء کسی خوف کے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
ہائیکورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی
دنیاکے ممالک ترقی یافتہ ممالک میں انسانی جان کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ وہاں کوئی بھی شخص بناء لائسنس یا نشے کی حالت میں ڈرائیو کرنے سے گریز کرتا ہے کہ کہیں اس کی وجہ سے کوئی دوسرا شخص یا گاڑی حادثے کا شکا ر نہ ہو جائے۔ ادھر ہمارے شہر کراچی میں انسانی جان کوکتنی اہمیت دی جاتی ہے اس کا انداز ہ صرف اس بات سے لگا لیں کے سندھ ہائی کورٹ نے تمام ہیوی ٹریفک کی صبح چھ بجے سے رات کے گیارہ بجے تک شہر کے اندر داخلے پہ پابندی لگا رکھی ہے۔
جب عدالت میں اس کیس کی سماعت ہوئی اور ڈی آئی جی، ٹریفک کو عدالت نے طلب کیا تو چند دن کے لئے ٹریفک پولیس نے اس پابندی پر عمل درآمد کروانے کی ”نمائشی“ کوشش کی لیکن چند دن بعد ہی وہ احکامات ہوا کی نذر ہو گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدا میں جن چنددنوں میں اس پابندی پر طوعاً و کرہاً عمل کروایا جا رہا تھا ان دنوں میں بھی جو ٹرانسپورٹرز مال پانی لگاتےتھے ان کے ڈرائیور ز کومشو رہ دیا گیا کہ وہ اپنی گاڑیاں مرکزی شاہراہوں پر کم سے کم لائیں اور گلیوں کے اندر سے گذاریں۔ آج کراچی کی سڑکوں پر دن کے اوقات میں بھی بڑی گاڑیاں اور ٹرک دوڑتے نظر آتے ہیں۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہائی کورٹ نے کبھی ایسا کوئی حکم نامہ جاری ہی نہیں کیا تھا۔
بڑی گاڑیوں کے لیے بڑا قانون؟
ٹریفک اہلکار چیکنگ کے بہانے سڑکوں پر موٹر سائیکل سواروں اور خصوصا نوجوان طلباء کو چلتی ٹریفک کے بیچ سے ”چھانٹ“ کر باہر نکالیتے ہیں لیکن انہیں دوسیٹوں والے رکشہ میں چھ سے سات سواریاں نظر نہیں آتیں ۔ اسی طرح جب کبھی کالے شیشے اور فینسی نمبر پلیٹس والی گاڑیوں کے خلاف کاروائی کرنے کا اوپر سے حکم آتا ہے تو چند دنوں کے لئے ناکے لگا کر میڈیا کے لئے فوٹو سیشن کروا ئے جاتے ہیں اور خانہ پری کر لی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت کراچی شہر میں ہرپانچ میں سے ایک گاڑی پر کالے شیشے اور فینسی نمبر پلیٹس موجود ہیں جو ٹریفک قوانین کا منہ چڑاتی ہوئی گزر رہی ہوتی ہیں۔ رات کے وقت اگر کسی بڑے ریسٹورنٹ کے سامنے سے گذریں تو گنا جا سکتا ہے کہ کتنی کالے شیشے والی گاڑیاں باہر پارک ہیں۔ لیکن رات میں ٹریفک پولیس چھٹی پر ہوتی ہے یا پھر یہ قانون شاید وقتی طور پر ”معطل“ ہو جاتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ان خلاف ورزیوں کو روکنے کے لئے کوئی قانون موجود نہیں ہے بلکہ ہماری ٹر یفک پولیس ایسی مہم جوئی کی عادی ہی نہیں ہے جس سے ان کی روزمرہ کی کمائی میں فرق پڑتا ہو۔اس وقت بھی کراچی شہر میں شاید ایک یا دو مقامات پر وہ بھی صرف ضلع جنوبی میں کبھی کبھی کالے شیشوں اور فینسی نمبر پلیٹس والی گاڑیوں کو چیک کیا جارہا ہوتا ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ باقی شہر کو اس چیکنگ سے استثنا ء حاصل ہے۔
کسی مرد مجاہد کا انتظار ہے
ٹریفک کے قوانین تو موجود ہیں لیکن اس پر عمل درآمد کروانے والے، ہوتے ہوئے بھی موجود نہیں ہیں۔ جو موجود ہیں وہ اپنے”معاشی حالات“ کی درستگی کے لئے ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں ان کے پاس شہر کے بے ہنگم ٹریفک کو ڈسپلن میں لانے کے لئے وقت نہیں ۔ ڈرائیونگ لائسنس برانچ میں لائسنس کے اجرا ء کے لیے سفارش اور رشوت کے عمل دخل کے سبب ہر طرح کے لوگ ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
گو کہ ڈرائیونگ لائسنس برانچز میں کرپشن کو روکنے کے لئے سی۔سی۔ٹی وی کیمرے بھی لگائے گئے لیکن شاید افسران بالا کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ کیمرے صرف شریف لوگوں کو ڈرانے کے کام آتے ہیں جب کہ ”کاریگر“ اپنا کام نکال ہی لیتے ہیں۔اب تو کسی ایسے مجاہد پولیس افسر کا انتظار ہے جو سب سے پہلے انسانی زندگی کو اہمیت دیتا ہو اور اس کی حفاظت کے لئے ہر قسم کی سفارش، رشوت اور ناجائز مراعات کو ٹھوکر مار دے اور کراچی شہر میں ٹریفک کو ڈسپلن میں لانے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات اٹھائے۔