سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی ضمانت کی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے وفاق اور ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے۔
چئیرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت پر سماعت جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی، جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ کا حصہ تھے۔
ایف آئی اے کی جانب سے تفتیشی افسر کے بغیر نوٹس پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ آپ کو کس نے بلایا ہے،پیچھے جا کے بیٹھ جائیں، چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے انکوائری رپورٹ اور مقدمے میں عمران خان پر عائد الزامات پڑھ کر سنائے۔
سلمان صفدر کے مطابق استغاثہ نے الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان نے اپنے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو سائفر کو غلط رنگ دینے کا کہا، الزام لگایا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے بل واسطہ یا بلا واسطہ ریاست کو نقصان پہنچایا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے دریافت کیا کہ شریک ملزمان کے کردار کا تعین ہوا کہ نہیں، جس پر سلمان صفدر نے بتایا کہ اسد عمر کو چھوڑ دیا گیا اور اعظم خان کو ملزم سے گواہ بنادیا گیا ہے، جسٹس یحیحی آفریدی بولے؛ پہلے کیس میں کہا گیا کہ اعظم خان ملزم ہیں، انکوائری میں کہا گیا تھا کہ شریک ملزمان کا کردار تفتیش میں طے کیا جائے گا۔
عدالتی استفسار پر سلمان صفدر نے بتایا کہ حتمی تفتیشی رپورٹ میں اعظم خان سے متعلق تفتیشی افسر نے کوئی واضح موقف نہیں بتایا، جبکہ اعظم خان کی فیملی نے ان کے اغوا کا مقدمہ بھی درج کروایا تھا، لیکن اغوا کے بعد اعظم خان کا 164 کا بیان آگیا۔
سلمان صفدر کا موقف تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ماتحت عدالت کے سامنے کئی گھنٹے دلائل دیے، اس موقع پر جسٹس سردار طارق نے کہا کہ آپ مقدمات کو سیاسی طور پر چلائیں گے تو یہی ہو گا، کس نے کہا تھا کہ اخراج مقدمہ اور ضمانت کو ایک ساتھ چلائیں۔
جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ ملزم 60 سال سے کم نہیں ہے اور کیس مزید انکوائری کا ہے تو اس طرف آئیں، جسٹس عائشہ ملک نے دریافت کیا کہ آپ کے کیس کے مرکزی گراونڈز کیا ہیں، جس پر سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ ان کا کیس یہ ہے کہ کیس بنتا ہی نہیں۔
وکیل سلمان صفدر کا موقف تھا کہ جو دفعات لگائی گئیں وہ جاسوسی جیسے جرائم پر لگتی ہیں، تحقیقات میں کہیں نہیں بتایا گیا کہ کہاں جاسوسی ہوئی،یا کسی دشمن ملک کو فائدہ پہنچا، جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں آپ نے سائفر کا کوڈ کمپرومائز کردیا، کوڈ اگرچہ تبدیل ہوتا رہتا ہے کئی بار ہفتے بعد بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔
سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ جو الزام ہے اس پر سزا ،جرمانہ یا 2 سال قید بنتی ہے مگر دفعات بڑی لگا دی گئیں، سائفر کو قانون کے مطابق ڈی کلاسیفائی کیا گیا اور نیشل سیکیورٹی کمیٹی میں پیش کیا گیا، نیشنل سکیورٹی کمیٹی میں سائفر پیش کرنے اور ڈی مارش کرنے کا ذکر سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود ہے۔
اس موقع پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ابھی آپ نوٹس ہی جاری کروانا چاہتے ہیں تو اس کی حد تک دلائل دیں، جسٹس یحیحی آفریدی نے دریافت کیا کہ سائفر ایک سیکرٹ دستاویز تھا یا نہیں، جس پر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ سائفر ڈی کلاسیفائی ہونے کے بعد سیکرٹ دستاویز نہیں تھا۔
جسٹس یحیی آفریدی نے پوچھا کہ ڈی کلاسیفائی ہونے سے پہلے کیا ملزم کو سائفر دکھایا گیا تھا، سلمان صفدر نے جواب دیا کہ اس دوران سائفر کسی کو نہیں دکھایا گیا، جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ سائفر کو ہوا میں لہرا کر بتادیا جائے اس میں یہ لکھا ہے تو کیا وہ ابلاغ کے زمرے میں نہیں آتا، جس پر جسٹس یحیحی آفریدی نے کہا کہ ابھی ہم ٹرائل نہیں بلکہ صرف الزامات کی نوعیت دیکھ رہے ہیں۔
عدالت نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ضمانت کی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے وفاق اور ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے، کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی ہے۔