کراچی کے صنعتکاروں کی نمائندہ تنظیموں نے گیس کی تجارتی قیمتوں میں اضافے کیخلاف آئندہ ماہ ایک روزہ علامتی ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ کراچی میں گیس اور بجلی کے ٹیرف کے حوالے سے درست فیصلے کیے جائیں بصورت دیگر صورتحال امن وامان کی خرابی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
کراچی میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ انڈسٹری کے صدر فیصل معیز خان کا کہنا تھا کہ گیس کے نرخ میں اضافے سے صنعتیں بند ہورہی ہیں، نارتھ کراچی میں 50 فیصد چھوٹی صنعتیں بند ہوچکی ہیں، کراچی کے حوالے سے نگراں حکومت کے فیصلے تعصب پر مبنی ہیں۔
’حکومت کے کانوں تک یہ بات نہیں جارہی اور نہ ہی وہ سمجھنے کو تیار ہیں، بزنس کمیونٹی کو جو مقام دیا جاتا ہے وہ حکومت دینے کو تیار نہیں ہے، موجودہ حالات کراچی اور اسکی صنعت کو تباہ کرنے کے مترادف ہیں۔‘
فیصل معیز خان نے مطالبہ کیا کہ کراچی میں گیس اور بجلی کے ٹیرف کے حوالے سے درست فیصلے کیے جائیں بصورت دیگر یہ امن وامان کی خرابی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز افتخار احمد شیخ کا کہنا تھا کہ گیس کی قیمت 1100 سے 2100 روپے کردی ہے جبکہ اوگرا کی جانب 1350 روپے تجویز کی گئی تھی، ہم نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ ہمارے ساتھ بیٹھیں اور گیس کی قیمتوں کے حوالے سے مسائل حل کریں۔
’ہم نے اخبارات میں اپیل شائع کی کہ حکومت اس مسئلے پر بیٹھے اور معاملات حل کرے، گزشتہ ماہ اکتوبر میں ملکی برآمدات میں 16 فیصد کمی ہوئی ہے، ہماری خواہش پے کہ برآمدات کو دوگنا کردیا جائے ، ہم 68 فیصد ٹیکس حکومتی خزانے میں جمع بھی کراتے ہیں لیکن اسکے باوجود یہ سلوک افسوسناک ہے۔‘
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریزکے سربراہ کا موقف تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پیداواری لاگت اس حد تک بڑھ جائے کہ مقامی صنعتکار کسی طورپرریجن میں مسابقت کرسکیں، ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے مقامی صنعتکار عالمی مارکیٹ سے کٹ جائیں گے اور ان کے آرڈرز منسوخ ہو جائیں گے۔
’صنعتیں بند ہوجائیں گی اور بے روزگاری بڑھے گی، جو امن وامان کی خرابی کا باعث بنے گی۔۔۔ حکومت ہمارے مسائل کے حل کے لیے بات چیت سے مسائل حل کرے، حکومت مجبور کررہی ہے کہ صنعتیں بند ہوں اور بے روزگاری مزید پھیلے۔‘
صدر کراچی چیمبر آف کامرس افتخار احمد شیخ نے اعلان کیا کہ کراچی کے صنعتکار دسمبر کے پہلے ہفتے میں ایک روزہ ٹوکن ہڑتال کریں گے، ہم حکومت سے توقع کرتے ہیں وہ ہماری بات نہ صرف سنے گی بلکہ مسائل کا حل بھی بتائیں گے۔
اس موقع پر اپنے خطاب میں فیڈرل بی ایریا ایسوسی ایشن آف ٹریڈ انڈسٹری کے رضا حسین نے بتایا کہ پہلے ہی بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے پیداواری لاگت دوگنی ہوچکی ہے اور اب گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ صنعتوں کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے، اوگرا کی جانب سے مجوزہ نرخ کے برخلاف حکومت اسے 21 سو روپے تک بڑھاتے ہوئے اس میں گردشی قرضوں کی ادائیگی کی مد بھی شامل کررہی ہے، جو سراسرناانصافی ہے۔
مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقامی صنعتکار جاوید بلوانی کا کہنا تھا کہ نارتھ کراچی کی صنعتوں سے وابستہ مشدور طبقہ بھی سڑکوں پر آگئی ہے، نوری آباد کوٹری کی صنعتوں کے لوگ بھی ان کے موقف کی تائید میں شامل ہیں، انہوں نے واضح کیا کہ سندھ اور بلوچستان سے 20 کے قریب ٹریڈ ایسوسی ایشن گیس کی قیمتوں کے حوالے سے یکساں موقف رکھتے ہیں ۔
’دو صوبے ہڑتال کرینگے تو آدھے پاکستان کی صنعتیں بند ہوجائیں گی، ہم سے ایک وزیر آکر بات کرتا ہے لیکن ہماری بات پر کوئی عمل نہیں ہوتا۔۔۔آئی ایم ایف یہ کیوں نہیں کہتا کہ کراس سبسڈی نہ دی جائے، جو ٹیکس دے رہے ہیں آپ ان سے کراس سبسڈی لے رہے ہو۔‘
جاوید بلوانی کا کہنا تھا کہ حکمرانوں سے زیادہ وہ ملک سے محبت کرتے ہیں، ملک کے لیے بہتر فیصلے کیے جائیں تاکہ صنعتیں چلیں، لوگوں کو ستر سالوں سے بےوقوف بنایا جارہا ہے۔ ’ہم آگلی پریس کانفرنس میں ہڑتال کا اعلان کریں گے جس میں کراچی سمیت پورے سندھ اور بلوچستان کی صنعتیں مکمل بند ہوں گی۔‘