پھر وہی آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز

منگل 28 نومبر 2023
author image

حماد شاہ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وہ 4 جنوری 2010 کی ایک ٹھنڈی صبح تھی لیکن میں اُس دن خوشی خوشی سکول روانہ ہو رہا تھا کیونکہ پاکستانی ٹیم ایک عرصے کے بعد آسٹریلیا کی سرزمین پر کوئی ٹیسٹ میچ آسانی سے جیتنے والی تھی۔ میں اسی خوشی کو اپنی آنکھوں میں سجائے سکول گیا اور پورا دن وہاں دل میں جیت کی اُمید لیے پرسکون رہا۔ دوپہر میں سکول سے چھٹی کے بعد جب گھر واپس پہنچا تو یہ سن کر سارے ارمانوں کا خون ہو گیا کہ پاکستان یہ میچ بھی ہار چکا ہے۔

آسٹریلیا میں ہمارا ٹریک ریکارڈ شروع ہی سے بدترین رہا ہے اور وہاں ٹیسٹ میچ ہارنا ہمارے لیے کوئی نئی یا انوکھی بات بھی نہیں ہے لیکن سڈنی ٹیسٹ ہمیشہ سے ہی میرا خون جلاتا ہے۔ ہم وہ میچ کیوں اور کیسے ہارے، مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی لیکن وہ جنوری میں سردی کی ٹھٹھرتی صبح تھی جو اٹھنے کے بعد ڈراؤنی خواب ثابت ہوئی ۔

پاکستان نے اس صدی میں اب تک آسٹریلیا میں چار ٹیسٹ سیریز کھیلی ہیں جس میں ہماری ٹیم نے ایک میچ بھی جیتنا تو دور بلکہ ڈرا تک نہیں کیا۔ پاکستانی ٹیم کو ہر سیریز میں نہ صرف شکست ہوئی بلکہ ہر سیریز میں یکطرفہ مقابلہ ہوا۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان اس صدی میں اب تک آسٹریلیا میں 11 ٹیسٹ میچ کھیلے گئے ہیں جو کہ سارے ہی پاکستانی ٹیم نے ہارے ہیں۔ ان 11 میں 3 میچز ایسے بھی تھے جس میں گرین شرٹس کو ایک اننگز سے شکست ہوئی۔

کرکٹ کو سمجھنے والے ایک بات کہتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم آسٹریلیا میں اس وجہ سے بے بس ہوجاتی ہے کیونکہ پاکستانی بلے بازوں کو باؤنسی پچز پر کھیلنا نہیں آتا۔ چونکہ پاکستانی بولنگ ہمیشہ ہی بلے بازوں سے بہتر رہی ہے تو شاید اسی بنیاد پر آسٹریلیا کے ساتھ سیریز کے معاملے کی بھی ذمہ داری بیٹنگ پر ڈال دی جاتی ہے۔ تاہم آسٹریلیا میں کھیلے گئے 11 میچوں کو دیکھا جائے تو پاکستان کے خلاف چھ مرتبہ پانچ سو سے زیادہ سکور بنا ہے۔ اس کا سیدھا سادا سایہی مطلب نکلتا ہے کہ پاکستانی بولر بھی آسٹریلیا میں ناکام اور بے بس رہے ہیں۔

پاکستان کے برعکس انڈیا کا ریکارڈ آسٹریلیا میں اس صدی اور بالخصوص گزشتہ ایک دہائی میں انتہائی شاندار رہا ہے ۔ انڈیا نے دو مرتبہ آسٹریلیا میں آسٹریلیا کے خلاف ‘بارڈر گواسکر’ ٹرافی جیتی ہے۔

 

ہم تو آسٹریلیا میں شاید جانے سے پہلے ہی یہ ذہن بنا کر جاتے ہیں کہ ہم نہیں جیتیں گے چاہے جو مرضی ہو جائے۔ اسی وجہ سے وہاں ہم سے نہ بولنگ ہوتی ہے، نہ بیٹنگ اور نہ ہی فیلڈنگ۔ آپ کو 2004 کی وہ صبح یاد ہوگی جب شعیب اختر کی جان توڑ بولنگ پر کامران اکمل سے آسان کیچ چھوٹ رہے تھے اور پھر سلمان بٹ کے ہاتھوں سے بھی آسان کیچ پھسل پھسل کر گر ے۔ اسی طرح چھ سال بعد سڈنی میں کامران اکمل کی مائیکل ہسی پر مسلسل مہربانیاں بھی یاد ہی ہوں گی۔ ہم کسے یاد کریں اور کس کس کو روئیں ہماری آنکھیں تو اپنی ٹیم کو آسٹریلیا میں ٹیسٹ میچ جیتتا دیکھنے کے لیے ترس گئی ہیں۔ آپ پاکستان کے آسٹریلیا جانے کے پچھلے چار دورے اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو صرف ایک ہی جیت نظر آئے گی۔ جو 2016 میں محمد حفیظ کی کپتانی میں پاکستان کو میلبرن میں ون ڈے میچ میں ملی تھی۔

بچپن پورا آسٹریلیا کے ٹورز میں سردیوں کی صبح پاکستانی ٹیم کو بے بس ہوتے ہی دیکھا ہے۔ ہر بار امید کی ہے کہ شاید اس مرتبہ ہم جیت جائیں لیکن پنجابی میں وہ کہتے ہیں نا کہ ‘کِتھوں’؟

پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ایک اور ٹیسٹ سیریز 14 دسمبر سے پرتھ میں شروع ہونے جا رہی ہے۔ ایک مرتبہ پھر سے وہ سرد صبح ہوں گی لیکن دعا ہے کہ اس مرتبہ ٹیم کا کھیل ٹھنڈا نہ ہوا۔ اس دورے پر جانے سے پہلے پاکستانی ٹیم میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں جس میں سب سے بڑی تبدیلی کپتان کی ہے۔ اس مرتبہ ٹیسٹ ٹیم کی کمان شان مسعود کے پاس ہوگی اور کوچنگ میں محمد حفیظ بطور ہیڈ کوچ جبکہ عمر گل فاسٹ بولنگ اور سعید اجمل سپن بولنگ کی کوچنگ کا شعبہ سنبھالیں گے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان کو آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز جیتنی ہے تو انہیں آسٹریلیا کو بھارتی ٹیم کی زبان میں جواب دینا ہوگا۔ بھارتی ٹیم کا ‘بارڈر گواسکر’ ٹرافی کے مقابلوں میں یہی جواب تھا کہ ہار کا خوف دماغ سے نکال کر آسٹریلیا پر حاوی ہونا ہے۔ اگر آسٹریلیا ایک اننگز میں گری تو اُسے دوبارہ اٹھنے نہیں دینا۔ اگر ہم نے بیٹنگ کرنی ہے تو جارحانہ کرنی ہے اور اگر بولنگ کرنی ہے تو وہ بھی جارحانہ کرنی ہے۔

بھارتی ٹیم نے آسٹریلیا میں کوئی راکٹ سائنس کرکٹ نہیں کھیلی ۔ انہوں نے صرف دو باتیں اپنے پلے باندھی تھیں۔ ایک یہ کہ اگر آسٹریلوی ٹیم اٹیک کرے تو ہم بھی اٹیک کریں گے، دوسرا، اگر وہ ’سلیجنگ‘ کریں گے تو ہم بھی بھرپور سلیجنگ کریں گے۔ بس یہ ہی باتیں کوئی ہمارے کپتان شان مسعود کو بتا دے کہ اگر پرتھ، میلبرن اور سڈنی میں ٹیسٹ جیتنے ہیں تو وہاں مسکین بچہ بن کے رہنے کی بجائے تھوڑا دلیر اور بدمعاش (مثبت) بننا پڑے گا کیونکہ کینگروز کا شکار اُن کے اپنے دیس میں آسان نہیں ہوتا۔

امید کرتے ہیں کہ جب ہم اگلی مرتبہ ملیں گے تو یہ بات ہو سکے گی کہ کیسے پاکستان نے پہلی مرتبہ آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز میں شکست دی ۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سافٹ ویئر انجینئرنگ میں ڈگری کرنے کے بعد اس وقت فری لانسنگ اور کانٹینٹ پروڈیوسر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ کرکٹ کا جنون کی حد تک شوق ہے اور باقی مانندہ وقت نیٹ فلکس پر بِتاتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp