یہ 1961 کا واقعہ ہے کہ پنجاب حکومت کے چیف انجینئر علی نواز گردیزی اپنی جرمن بیوی ریناٹا (Renata) گردیزی کے ساتھ لاہور میں ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔ اگست 1961 میں میاں بیوی نے کوئٹہ کا دورہ کیا۔ وہاں ان کی ملاقات کرنل یوسف سے ہوئی۔ کرنل یوسف اور ریناٹا گردیزی کے درمیان پہلی نظر میں پیار والا معاملہ ہوگیا۔ کرنل یوسف دسمبر میں لاہور آیا اور ریناٹا کو اپنے ساتھ کوئٹہ لے گیا۔ کوئٹہ جاکر اس جوڑے نے جنوری میں شادی کرلی۔
ریناٹا کا پہلا شوہر بے چارہ حیران و پریشان کہ اس کے ساتھ یہ کیا معاملہ ہوگیا۔ بہرحال علی نواز گردیزی نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 497,498 کے تحت کرنل یوسف کے خلاف اس کی بیوی کو لبھانے (Enticing) اور بدکاری(Adultery) کا مقدمہ دائر کردیا۔ عدالت میں ٹرائل کے بعد ویسٹ پاکستان ہائیکورٹ نے کرنل یوسف کو جرائم ثابت ہونے پر بھاری جرمانہ عائد کردیا۔ کرنل یوسف کے پاس اس سارے معاملے کا واحد دفاع یہ تھا کہ علی نواز گردیزی نے اپنی بیوی ریناٹا کو طلاق دے دی تھی جبکہ علی نواز گردیزی نے اس کو جعلی قرار دیا۔
اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کرنل یوسف Vs ریناٹا گردیزی کا مقدمہ کافی مرتبہ مختلف ججمنٹس میں رپورٹ ہوچکا ہے۔ اور خاور مانیکا کا معاملہ اس واقعے سے بہت ملتا جلتا ہے جبکہ جن دفعات کے تحت خاور مانیکا نے عمران خان کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے وہ بھی ایک جیسی ہیں۔
جب عمران خان کی عدت کے دوران نکاح کے مقدمے کی درخواست پہلے درخواست گزار نے واپس لی تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ پاکستان پینل کوڈ کی مندرجہ بالا دفعات کے تحت شوہر یا بیٹے ہی درخواست دائر کرسکتے ہیں ایسے مقدمات کے لیے یہ مقدمہ کیونکہ حدود آرڈیننس کے تحت درج نہیں ہوسکتا تھا اس لیے پاکستان پینل کوڈ کے تحت کیا گیا۔ اس میں چاہے سزا اتنی زیادہ نہیں لیکن اس کے عمران خان کے خلاف سیاسی طور پر دور رس نتائج ہوں گے۔ اس میں سیاسی طور پر کیچڑ بہت اچھلے گا، نہ صرف عمران خان پر بلکہ بشریٰ بی بی کے کردار پر بھی۔
کچھ دن پہلےخاور مانیکا نے جیو نیوز پر شاہ زیب خانزادہ کے شو میں جو انکشاف کیا کہ انہوں نے بشریٰ بی بی کو 14 نومبر کو طلاق دی تو اس کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث شروع ہوگئی۔ مسلم فیملی لا کی شق نمبر 7 کے مطابق جب شوہر اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو اسے وہ متعلقہ یونین کونسل میں رجسٹر کرواتا ہے اور 90 دنوں میں یونین کونسل کا چئیرمین طلاق کا سرٹیفیکیٹ جاری کرتا ہے جس کے بعد ہی طلاق کا قانونی پراسیس مکمل ہوتا ہے۔
اگر خاور مانیکا کا دعویٰ سچ ثابت ہوتا ہے تو اس کے مطابق بشریٰ بی بی پر خاور مانیکا کی طلاق 14 فروری کو لاگو ہوگی جس کے بعد ہی وہ قانوناً کہیں اور شادی کر سکتی تھیں۔ تاہم خاور مانیکا نے اعتراف کیا کہ بشریٰ بی بی کا عمران خان کے ساتھ نکاح یکم جنوری 2018 کو ہوا اور نکاح نامے کی کاپی بھی انہوں نے اپنی درخواست کے ساتھ منسلک کی۔ گواہوں کے طور پر انہوں نے عمران خان کے نکاح خواں مفتی سعید اور عون چوہدری سمیت چار لوگوں کو شامل کیا۔
اس سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ ابھی طلاق کا قانونی پراسیس ہی مکمل نہیں ہوا تھا اور عمران خان نے اس سے پہلے ہی نکاح کر لیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب بشریٰ بی بی کی عدت کے دوران نکاح کی خبر آئی تو عمران خان نے ایک بار پھر 16 فروری 2018 کو بشریٰ بی بی سے نکاح کی تقریب منعقد کروائی اور اس کی باقاعدہ تصاویر جاری کیں۔
جب ان گواہوں کی شہادت نوٹ ہو جائے گی تو اس کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی پر جرح بھی ہوگی۔ پھر جو سیاسی طور پر ان پر کیچڑ اچھلے گا وہ تو ایک طرف لیکن اس کا سیاسی نقصان عمران خان کو ضرور ہوگا۔
پہلا نقصان یہ ہوسکتا ہے کہ اگر ثابت ہوگیا کہ عمران خان نے بشری بی بی سے نکاح اس وقت کیا جب ان کی طلاق کی قانونی مدت ہی پوری نہیں ہوئی تھی تو اس کی شاید پاکستان پینل کوڈ کے تحت ان کو سزا بھی ملے۔ سزا ملنے کی صورت عمران خان قانونی طور پر صادق اور امین نہیں رہیں گے۔ جس کا مطلب ہے کہ اس کیس میں بھی وہ سیاست سے نااہل ہوسکتے ہیں۔ گویا خاور مانیکا نے اپنی طرف سے ترپ کا پتہ چلا ہے، اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے وہ وقت ہی بتائے گا۔
اس کیس سے بہرحال عمران خان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ توشہ خانہ کیس، سائفر کیس، القادر ٹرسٹ کیس، 9 مئی کے حملوں کے کیس کیساتھ ساتھ اس مقدمے کے اضافے کا مطلب ہے مقتدر قوتیں نہیں چاہتی کہ عمران خان جلدی رہا ہوں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان مقدمات کا انجام کیا ہوتا ہے اور کیا مقتدر قوتیں سیاسی طور پر عمران خان کو توڑنے میں کامیاب ہوتی ہیں کہ نہیں۔