میرا تعلق پنجاب کے ایک میدانی علاقے سے ہے۔ یہاں جب گرمی پڑتی ہے تو اُسے برداشت کرنا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے اور جب سردیاں پڑتی ہیں تو وہ بھی جان توڑ دیتی ہیں۔ اس مرتبہ دسمبر کا وسط آنے والا ہے اور جیسے ہمارے بزرگ کہتے ہوتے ہیں نا کہ ‘ہنڑ او سردیاں نئیں ریاں’، اس بار واقعی ہی سردیاں ابھی تک ویسی نہیں آئیں یا اگر آئی بھی ہیں تو مجھے شاید ویسی نہیں لگ رہیں۔
عجیب موسم چل رہا ہے بھئی کیونکہ ابھی تک میں تو شش و پنج کا شکار ہوں کہ دن کو کیا پہنوں اور رات کو کیا پہنوں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ شام کے وقت والدہ کو چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا تھا تو سوچا ایک شال اوڑھ لیتا ہوں، سویٹر یا جیکٹ کی ضرورت نہیں لیکن جب بائیک پر بیٹھا تو دل ہی بیٹھ گیا کیونکہ سورج کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ سردی بڑھنے لگی اور میرے لیے بائیک چلانا عذاب ہوگیا۔ بائیک سے اترا تو پھر وہی تقریباً شال یا ہلکی سی جرسی پہننے والا موسم تھا۔
دن کو دفتر یا کسی کام سے جانے کے لیے باہر نکلو تو جیکٹ نہیں پہنی جاتی، دل کرتا ہے بندہ صرف ہلکی پھلکی گرم شرٹ یا سویٹر پہن لے اور جب رات کو واپس آؤ تو پچھتانا پڑتا ہے کاش میں جیکٹ لے لیتا، ٹوپی پہن لیتا اور مفلر اوڑھ لیتا۔
جو بندے میری طرح موٹر سائیکل والے ہیں، اُن کو سردیوں میں کہیں آنے جانے کے لیے بہت سے انتظامات کرنے ہوتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ پورا جہیز تیار کرنا پڑتا ہے۔ پہلے تو سویٹر پہنیں، پھر جیکٹ پہنیں، سر پر ٹوپی، کانوں کے اردگرد مفلر لپیٹیں اور پھر ہاتھوں پر دستانے پہنیں اور اس کے علاوہ بوٹ اور جرابیں تو لازم و ملزوم ہی ہیں۔
یہ معاملہ صرف یہیں ختم نہیں ہوتا، بلکہ رات کو سوتے وقت بھی اسی کشمکش میں سونا پڑتا ہے کہ سردی ہے یا نہیں ہے۔ جیسے ہی اپنے اوپر رضائی ڈالو تو کچھ ہی منٹوں بعد گرمی لگنے لگ پڑتی ہے اور پھر پاؤں باہر نکالنے پڑتے ہیں۔ دونوں پاؤں باہر نکالو تو سردی لگنے لگ پڑتی ہے اور پھر ایک پاؤں کو اندر اور ایک کو باہر نکالنا پڑتا ہے۔ پھر ایک بازو کوباہر نکالنا پڑتا ہے جس کے بعد سردی لگتے ہی اُسے دوبارہ رضائی کے اندر کرنا پڑتا ہے۔ جب تک آنکھ نہ لگ جائے یہ کھیل جاری رہتا ہے۔
میری ذاتی رائے میں سردیاں گرمیوں سے زیادہ سخت اور بے رحم ہوتی ہیں۔ گرمیوں میں کم از کم کھانا پکانے کے مسائل تو نہیں ہوتے یعنی گیس بالکل بھی نہیں جاتی اور انسان ہر قسم کے ڈھیلے ڈھالے لباس میں رہ سکتا ہے۔ سردیاں بے رحم ہو سکتی ہیں، ہر اُس شخص کے لیے جسے رات کھلے میں گزارنی پڑے، ہر اُس مسافر کے لیے جسے کئی گاڑیاں تبدیل کرنی پڑیں اور ہر اُس مڈل کلاس ملازم کے لیے جسے کئی کلومیٹر روز اپنی بائیک یخ بستہ ہواؤں کا سینہ چیرتے ہوئے چار پیسے کمانے کے لیے چلانی پڑے۔
مجھے گرمیاں اس وجہ سے پسند ہیں کہ اگر دوپہروں کو گزار لیا جائے تو باقی دن اتنا سخت نہیں ہوتا اور گرمیاں جیب پر بھی ہلکی پڑتی ہیں جبکہ سردیوں میں اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اضافی لباس کی ضرورت بڑھ جاتی ہے جیسے جیکٹ، جرسیاں، ٹوپیاں، دستانے اور جرابیں وغیرہ۔ بیوی بچوں والوں کا خرچہ ویسے ہی ڈبل رہتا ہے کیونکہ ہر سال بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں اور انہیں ہر سال نئی سے نئی چیزیں چاہیے ہوتی ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ جیسے انسانوں کے رویے سخت ہوتے جا رہے ہیں ویسے موسم بھی شدید ہوتے جا رہے ہیں۔ سردی نہیں پڑتی تو نہیں پڑتی لیکن جب پڑتی ہے تو دماغ سُن ہو جاتا ہے اور میدانی علاقوں میں بھی ہڈیاں کڑکنے لگ جاتی ہیں۔ موسموں کا غیر یقینی ہونا، بارشوں کا کم ہونا اور پھر اگر ہونا تو ہوتے چلے جانا اور پھر موسموں کا شدت سے آنا یہ سب گلوبل وارمنگ کی نشانیاں ہیں۔ موسم سکڑ کر رہ گئے ہیں اور شدید ترین ہوگئے ہیں۔ موسم کے بارے میں پیش گوئی کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ ابھی بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ گلوبل وارمنگ پر قابو پا لیں کیونکہ یہ ایسا عذاب بن رہا ہے جس سے شاید کوئی بشر بھی نہیں بچ پائے گا۔