جنگ زدہ شام کی یسرٰی نہ صرف اپنی بہن اور دیگر ممالک کے شہریوں کے ہمراہ بحیرہ روم میں تقریباً ڈوبتے ڈوبتے بچیں بلکہ یورپ کی ریفیوجی ٹیم کا بطور ماہر تیراک حصہ بن کر 2016 کے ریو اولمپکس میں شرکت کے اپنے خواب کی بھی تکمیل کی۔
یسرٰی اس لحاط سے بھی خوش قسمت ثابت ہوئیں کہ ان کی اس زندہ جاوید کہانی کو ہدایتکار سیلی الحسینی نے نیٹ فلکس کے لیے ایک فلم میں تبدیل کر کے امر کردیا۔
یسرٰی کی جدوجہد سے بھرپور اور پر امید زندگی پر مبنی اس فلم کو دنیا بھر میں کافی پذایرائی ملی۔
تاہم انسانی اسمگلنگ کے اسی آزمودہ مگر بے رحم راستہ کو اختیار کرنے والی پاکستانی ایتھلیٹ شاہدہ رضا کی قسمت نے ان سے وفا نہ کی۔
اچھے مستقبل کی خاطر یورپ پہنچنے کی آس لیے شاہدہ رضا سو سے زائد افراد کے ساتھ بپھرتے سمندر میں اس بدقسمت کشتی کی مسافر تھیں جو کچھ روز قبل جنوبی اٹلی کے قریب تباہ ہوکر ڈوب گئی تھی۔
بیک وقت ہاکی اور فبٹال کھیلنے والی شاہدہ رضا کا تعلق کوئٹہ میں آباد ہزارہ کمیونٹی سے تھا۔ مری آباد کی رہائشی شاہدہ رضا نے، جسے اس کی ساتھی کھلاڑی آج بھی پیار سے چنٹو کے نام سے یاد کرتی ہیں، ایک کم سن بچہ اور تین بہنوں سمیت اپنی والدہ کو سوگوار چھوڑ ا ہے۔
شاہدہ کی بڑی بہن سعدیہ رضا نے وی نیوز کو بتایا کہ شاہدہ نے یہ پرخطر سفر اپنے تین سالہ بیٹے کے لیے کیا جو ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ہے۔
’وہ جب بھی اپنے اکلوتے بیٹے کی معذوری کے بارے میں سوچتی تھی رو پڑتی تھی۔ مقامی طور پر پوری کوششوں کے بعد اس نے بیٹے کے علاج اور اس کے بہتر مستقبل کے لیے یورپ پہنچنے کا فیصلہ کیا۔‘
شاہدہ رضا پاکستان کی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی ایک پرجوش کھلاڑی تھیں۔ وہ گزشتہ دو دہائیوں سے ہاکی اور فٹ بال کھیل رہی تھیں اور کئی قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں قومی ہاکی اور فٹ بال ٹیموں کی نمائندگی کرتی رہی ہیں۔
وہ قومی خواتین ہاکی اور فٹ بال اسکواڈز کے ساتھ چین، ملائیشیا، ایران، قطر اور سری لنکا کا سفر بھی کرچکی تھیں۔
شاہدہ کے اہل خانہ کے مطابق شاہدہ نے گذشتہ برس اکتوبر میں ترکی کا سفر اختیار کیا جہاں وہ اٹلی (یورپ) میں داخل ہونے کے لیے 150 سے زیادہ تارکینِ وطن کے ساتھ لکڑی کی کشتی پر سوار ہوئیں جن میں خاص طور پر پاکستان، ایران اور افغانستان سے تھے۔
ان کی بدقسمت کشتی 25 فروری کو اطالوی ساحلی شہر کیلابریا کے ساحلی شہر کروٹون کے قریب شدید سمندری طوفان کی زد میں آ گئی تھی جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 62 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ شاہدہ رضا سمیت 2پاکستانی اطالوی ساحل پر مردہ پائے گئے۔
سعدیہ رضا کے مطابق ان کی چھوٹی بہن شاہدہ رضا بچپن سے ہی کھیلوں کی بہت شوقین تھیں اور اس کے لیے اس نے ابتدا میں لڑکوں جیسا حلیہ اختیار کیے رکھا۔ ’خاندانی پابندیوں کے باوجود اس نے کھیلوں میں حصہ لیا اور اپنے خوابوں کی تکمیل کرتے ہوئے پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔‘
شاہدہ رضا کی اس نوعیت کی موت ان کے لواحقین کے لیے ایک قیامت سے کم نہیں۔ اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے سعدیہ کا کہنا تھا کہ ان کی بہن اب اس دنیا کے غموں سے آزاد ہوچکی ہے۔ ’لیکن میری حکومت سے دردمندانہ درخواست ہے کہ شاہدہ کی میت کو وطن واپس لانے میں ہمارے خاندان کی مدد کی جائے۔‘