کمرہ نمبر 9

پیر 18 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

موسیقار رشید عطرے کہا کرتے تھے کہ ’منظم شور ہی موسیقی ہے۔‘ انہوں نے 48 برس کی مختصر زندگی میں اس ہنر مندی سے شور منظم کیا کہ وہ آج بھی باذوق کانوں میں رس گھول رہا ہے۔ شائقین موسیقی ان کی ترتیب دی گئی دھنوں پر سر دھنتے ہیں اور داد دیتے ہیں۔ عبدالرشید عطرے 15 فروری 1919 کو امرتسر میں پیدا ہوئے اور 18 دسمبر 1967 کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ آج ہر دلعزیز موسیقار کی 56ویں برسی ہے۔

رشید عطرے مجھے محض اس لیے پسند نہیں کہ ہماری سالگرہ (15فروری) ایک ہی دن ہے۔ پسندیدگی کی بڑی وجہ دنیائے موسیقی میں ان کی بیش بہا اور ناقابلِ فراموش خدمات ہیں۔ آج پاکستان کی دم تورٹی موسیقی کو جن معدودے چَند موسیقاروں نے بام عروج پہ پہنچایا تھا، رشید عطرے ان میں سے ایک بڑا اور اہم نام ہیں۔

نگار ایوارڈ حاصل کرنے کی ہیٹ ٹرک

نگار ایوارڈ پاکستان کا سب سے بڑا اور مستند فلمی ایوارڈ ہے۔ الیاس رشیدی مرحوم نے فلم انڈسٹری کی حوصلہ افزائی کے لیے 1957 میں نگار ایوارڈ کا اجرا کیا تھا۔ رشید عطرے پاکستان کے پہلے موسیقار ہیں، جنہیں موسیقی کے پہلے نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ یہی نہیں عطرے پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے نگار ایوارڈ حاصل کرنے کی ہیٹ ٹرک مکمل کی۔ انہیں 1957 میں فلم ’سات لاکھ‘ کی موسیقی ترتیب دینے پر جبکہ 1959 میں فلم ’نیند‘ اور 1961 میں فلم ’شہید‘ کی دلفریب موسیقی پر نگار ایوارڈز دیے گئے تھے۔

موسیقی کے ’ربابی‘ گھرانے سے تعلق !

رشید عطرے موسیقی کے ’ربابی‘ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد معروف ہارمونیم نواز خوشی محمد امرتسری تھے۔ موسیقی کی ’الف ب‘ والد صاحب سے سیکھی اور پھر مشہور گائیک استاد فیاض علی خان کے سامنے زانُوے تَلَمُّذ تَہ کیا۔

موسیقی کی آبیاری کے لیے امرتسر سے کلکتہ اور پھر بمبئی کا رخ کیا، جہاں جلد ہی مشہور موسیقار رائے چند بورال کے ساتھ بطور اسٹنٹ فلمی کیریئر شروع کیا۔ 23 برس کی عمر میں 1942 میں فلم ’مامتا‘ کی موسیقی بنانے کا موقع ملا۔

’کمرہ نمبر 9‘ کے تنہا موسیقار

1947 کی تقسیم تک رشید عطرے نے 4 فلموں کی مشترکہ موسیقی ترتیب دی، جبکہ 4 فلموں نتیجہ، پارو، شکایت اور ’کمرہ نمبر 9‘ کے وہ تنہا موسیقار تھے۔ اس فلم کا ایک گانا محمد رفیع نے بھی گایا تھا۔  شکایت فلم کا گانا ’وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘ آج بھی شائقین موسیقی کو یاد ہے۔

’میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اِک دن‘

رشید عطرے قیام پاکستان کے بعد لاہور آ گئے۔ 1950 میں فلم ’بیلی‘ کی موسیقی ترتیب دی جو ان کی پہلی پاکستانی فلم تھی، شائقین نے فلم کو شرفِ قبولیت نہ بخشا، یوں مایوس ہو کر راولپنڈی چلے گئے اور پاکستان ریڈیو سے بطور میوزک کمپوزر منسلک ہو گئے۔ یہاں انیقہ بانو، شوکت مرزا اور نذیر بیگم پنڈی والی جیسی آوازوں کو دریافت کیا۔ انہوں نے ریڈیو راولپنڈی کے لیے حافظ مظہرالدین مظہر کے تحریر کردہ نغمے ’میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اِک دن‘ کی موسیقی دےکر امر کردیا۔

موسیقار رشید عطرے کی مشہور فلمیں

شیریں فرہاد 1945، بیلی 1950، شہری بابو 1953، روحی 1954، سرفروش 1956، لیلیٰ مجنوں 1957، وعدہ 1957، سات لاکھ 1957، نیند 1958، چنگیز خان 1958، جانِ بہار1958، انارکلی 1958، مکھڑا 1958، سلمیٰ 1960، شام ڈھلے 1960، گلفام 1961، شہید 1962، موسیقار 1962، قیدی 1962، فرنگی 1964، جی دار 1964، انسان 1966، پائل کی جھنکار 1966، چٹان 1967، مرزا جٹ 1967، ظالم 1968، محل 1968، (زرقا 1969، بہشت 1974، وفات کے بعد ریلیز ہوئیں)

آزاد کشمیر کا قومی ترانہ ’وطن ہمارا آزاد کشمیر‘

آزاد کشمیر کا قومی ترانہ 1949 میں حفیظ جالندھری نے لکھا تھا، جسے ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کی موسیقی رشید عطرے نے ساتھی موسیقار عنایت شاہ کے ساتھ مل کر ترتیب دی تھی۔ ترانے کو منور سلطانہ، انیقہ بانو اور ساتھیوں نے گایا تھا۔ آزاد کشمیر حکومت نے اسے 1972 میں کشمیر کے قومی ترانے کا درجہ دیا تھا۔

’گائے گی دنیا گیت میرے‘ 11 بہترین گانے

1: تیری الفت میں صنم، دل نے بہت درد سہے (فلم: سرفروش 1956)
2: آئے موسم رنگیلے سہانے، جیا نہ ہی مانے (فلم: سات لاکھ 1957)
3: تیرے در پر صنم چلے آئے، تو نہ آیا تو ہم چلے آئے (فلم: نیند 1958)
4: سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی (فلم: شام ڈھلے 1960)
5: یہ ناز، یہ انداز، یہ جادو، یہ ادائیں (فلم: گلفام 1961)
6: اس بے وفا کا شہر ہے، اور ہم ہیں دوستو (فلم: شہید 1962)
7: گائے گی دنیا گیت میرے (فلم: موسیقار 1962)
8: مجھ سے پہلی سی محبت، میرے محبوب نہ مانگ (فلم: قیدی 1962)
9: گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے (فلم: فرنگی 1964)
10: لٹ الجھی، سلجھا جا رے بالم (فلم: سوال 1964)
11: حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں (فلم: پائل کی جھنکار 1966)

رشید عطرے اور ملکہ ترنم نورجہاں کی یادگار تصویر

48 اردو اور 7 پنجابی فلموں کی موسیقی!

رشید عطرے 1953 میں ہدایت کار و اداکار نذیر کی ضد پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے دوبارہ فلمی دنیا میں لوٹ آئے اور فلم ’شہری بابو‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ فلم کے گیتوں نے دھوم مچا دی۔ پھر مرتے دم تک رشید عطرے فلم پروڈیوسرز کی ترجیح بنے رہے۔ انہوں نے 55 فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں 48 اردو اور 7 پنجابی فلمیں شامل ہیں۔

’اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقتِ شہادت ہے آیا‘

رشید عطرے نے 1958 میں فلم ’چنگیز خان‘ کے لیے ایک گیت ’ اے مردِ مجاہد جاگ ذرا‘ کمپوز کیا جس کے بول طفیل ہوشیار پوری نے لکھے تھے۔ اس گیت کی مقبولیت کی بدولت پاک فوج نے اسے فوج کے سرکاری ترانے کے طور پر منتخب کرلیا تھا۔ اس ترانے کو عنایت حسین بھٹی نے کورس کے ساتھ گایا تھا۔

دائیں سے بائیں: عنایت حسین بھٹی، طفیل ہوشیار پوری اور رشید عطرے

اس ترانے کی دھن کو فوجی بھائیوں کے ریڈیو پروگرام کی سگنیچر ٹیون بھی بنایا گیا تھا۔ 65 کی جنگ میں جنگی ترانے نہ ہونے کی وجہ سے پہلے پہل پی ٹی وی اور ریڈیو پر یہی ترانہ نشر کیا گیا تھا۔ پاک فوج کے مارچ پاسٹ پر بھی یہی دھن بجائی جاتی ہے۔

’دلا، ٹھہر جا یار دا نظارا لین دے‘

رشید عطرے کو موسیقی کا پاور ہاؤس بھی کہا جاتا تھا۔ انہوں نے 3 فلمیں شہری بابو، وعدہ اور موسیقار پروڈیوس بھی کیں۔ رشید عطرے کی خوبی یہ تھی کہ وہ اردو اور پنجابی میں شاندار موسیقی ترتیب دیا کرتے تھے۔ 7 پنجابی فلموں میں ان کی موسیقی کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بولتا ہے:

بھاگاں والیو، نام جپو مولا نام نام (فلم: شہری بابو 1950)
گلاں سن کے ماہی دے نال میریاں، دوپٹہ بے ایمان ہوگیا (فلم: شہری بابو 1950)
دلا، ٹھہر جا یار دا نظارا لین دے (فلم: مکھڑا 1958)
نکے ہندیاں دا پیار، ویکھیں دیویں نہ وسار (فلم: مرزاجٹ 1967)
دل دیاں لگیاں جانے نہ، میرا پیار پہچانے نہ (فلم:باؤ جی 1968)

جب بیٹے نے باپ کا ادھورا کام مکمل کیا؟

1969 میں فلم’زرقا‘نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ فلم کے گانے حبیب جالب نے لکھے تھے جبکہ موسیقی رشید عطرے نے ترتیب دی تھی۔ رشید عطرے کی ناگہانی وفات کے بعد ان کے ہونہار موسیقار صاحبزادے وجاہت عطرے نے فلم کے ادھورے گانوں کی موسیقی مکمل کی تھی۔

وجاہت عطرے نے کیریئر کا آغاز 1967 میں فلم ’پرستان‘ سے کیا تھا اور ’چن وریام‘، ’مکھڑا‘، ’شیرخان‘، ’نوکر ووہٹی دا‘، ’صاحب جی‘ اور ’عشق خدا‘ سمیت کئی فلموں کے گانے تخلیق کیے تھے۔ 40 سالہ کیریئر میں 200 فلموں کی موسیقی دی۔ حکومت پاکستا ن نے انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا۔ وجاہت عطرے 26 مئی 2017 کو لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔

’کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں‘

1958 میں فلم ’انارکلی‘ میں ملکہ ترنم نورجہاں کے سدا بہار گیت ’کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں‘ نے مقبولیت کے تمام ریکارڈز توڑ دیے تھے۔ اس گیت کی موسیقی پاکستانی موسیقی کے سرخیل رشید عطرے نے دی تھی جو ان کی فنی مہارت اور تجربے کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

دنیائے موسیقی میں ’موسیقارِ پاکستان‘ رشید عطرے کی بیش بہا خدمات پر کئی کتابیں مرتب کی جا سکتی ہیں۔ مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp