اپنے ہی ہم وطنوں کو گولی مار کر قتل کرنے کے واقعہ پر دنیا بھر سے اسرائیلی فوج کے طرز عمل کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ واضح ہوگیا ہے کہ اسرائیل کی فوج کئی دہائیوں سے فلسطینی شہریوں کے خلاف ’پہلے گولی مارو، بعد میں سوال کرو‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے اپنے شہریوں کو مارنے کے واقعات کے بعد جنگ بندی کے مطالبات کو نظر انداز کرنے والی وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت کو متاثرہ خاندانوں اور عوام کی شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اسرائیلی شہریوں نے اپنی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جنگ بندی کرے اور حماس سے مذاکرات کا آغاز کرے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل ایلون لائل کا کہنا ہے کہ ان افسوسناک واقعات سے لوگوں کو صدمہ پہنچا ہے اور ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت پر دباؤ بڑھا ہے۔
🚨🇮🇱 You expect me to believe that ISRAEL MURDERED this hostage because they mistook him for a HAMAS SOLDIER? pic.twitter.com/wJkUfhpdHA
— Jackson Hinkle 🇺🇸 (@jacksonhinklle) December 20, 2023
اسرائیلی سیاسی تجزیہ کار ناہوم بارنیئیا کا خیال ہے کہ ایسے واقعات کو صرف ’افسوسناک‘ کہنا کافی نہیں کیونکہ یہ واقعات اور طرز عمل بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
انہوں نے کہا، ’بین الاقوامی قوانین کے مطابق سرنڈر کرنے والے کسی بھی فرد، شہری یا فوجی اہلکار کو مارنا جنگی جرم ہے۔‘
اسرائیل اور فلسطین کے لیے ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر عمر شاکر کہتے ہیں، ’اسرائیلی فوج سفید جھنڈے لہرانے والے غیرمسلح لوگوں پر گولیاں چلانے کا ریکارڈ رکھتی ہے۔‘
شاکر نے کہا اس طرح کی ہلاکتیں اسرائیلی فورسز کے پہلے گولی مارنے اور بعد میں پوچھنے کی دیرینہ مشق کو واضح کرتی ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے اسرائیلی فوجیوں نے غزہ کے فلسطینی علاقے میں حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے اپنے 3 ہم وطنوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
ان تینوں نوجوانوں نے اسرائیلی فوجیوں کو اپنی قمیصیں اتار کر باور کرایا تھا کہ وہ غیر مسلح ہیں، انہوں نے سفید جھنڈا لہرایا تھا اور اسرائیلی فوجیوں سے عبرانی زبان میں بات بھی کی تھی، وہ ان سے اپنی زندگیوں کی بھیک مانگ رہے تھے لیکن اس کے باوجود اسرائیلی فوجیوں نے انہیں بیدردی سے قتل کردیا تھا۔