یہ 1977 کی بات ہے ملک بھر میں 9 جماعتی اتحاد پاکستان نیشنل الائنس (PNA) نے اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک ہی انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ یہ کیونکہ 9 مختلف جماعتیں تھیں اس لیے ہر پارٹی کو علیحدہ علیحدہ انتخابی نشان ملنا تھا لیکن اس اتحاد نے فیصلہ کیا کہ وہ بھٹو کے خلاف ایک متحد سیاسی محاذ بنا کر ایک ہی نشان پر الیکشن لڑیں گے۔ پی این اے نے مطالبہ کیا کہ انہیں انتخابی نشان ’ہل‘ دیا جائے۔
معاملہ الیکشن کمیشن گیا تو اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان نے انتخابی نشان ’ہل‘ دینے کی درخواست مسترد کردی کیونکہ پی این اے بطور ایک سیاسی پارٹی رجسٹرڈ نہیں تھی۔ یہ تو 9 مختلف سیاسی جماعتوں کا ایک اتحاد تھا۔ اس لیے یہ ایک انتخابی نشان پر الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے۔ تاہم چیف الیکشن کمشنر نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اگر حکومت کسی آرڈیننس کے ذریعے چاہے تو ان کو ہل کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے کی اجازت دے سکتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے جذبہ خیرسگالی کے تحت پی این اے کو ان کا مطلوبہ انتخابی نشان دینے کی منظوری دے دی۔
جیسے ہی انتخابی مہم شروع ہوئی پی این اے نے قرآن کو اپنا انتخابی منشور قرار دیا اور بجائے اپنا کوئی انتخابی ایجنڈا دینے کے ان کی ساری انتخابی مہم بھٹو حکومت کی خامیاں اور غلطیاں اجاگر کرنے پر مرکوز تھی۔ انتخابی مہم کے دوران پی این اے نے بڑے بڑے انتخابی جلسے منعقد کیے اور عوام اس قدر زیادہ ان جلسوں میں آتی کہ بعض اوقات تو اس اتحاد کے لیڈران کو بھی یقین نہ آتا۔ لیکن جب الیکشن کے نتائج آئے تو بھٹو نے 200 میں سے 155 قومی اسمبلی کی نشستوں پر فتح حاصل کی جبکہ پی این اے کو صرف 36 سیٹیں ملی۔
موجودہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے بلے کے انتخابی نشان کا معاملہ بھی پی این اے تحریک سے ملتا جلتا ہے۔ پی ٹی آئی بھی پی این اے کی طرح یہی سوچ رہی ہے کہ اسے بھرپور عوامی سپورٹ حاصل ہے اور بجائے کوئی انتخابی ایجنڈا دینے کے ان کا انحصار بھی صرف اور صرف مخالف سیاسی جماعتوں کی خامیاں اور غلطیاں اجاگر کرنے پر ہے۔ اور اسی پر ساری توانائیاں مرکوز کی ہوئی ہیں۔ بھٹو نے اپنی انتخابی مہم میں لیبر پالیسی متعارف کروائی اور لینڈ ریفارمز پر توجہ دینے کا وعدہ کیا۔ عوام کو الیکشن میں اس بات سے غرض ہوتی ہے کہ کون ان کے مسائل حل کرے گا نا کہ اس بات پر کہ فلاں سیاسی جماعت کتنی بری ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں پی ٹی آئی یہاں یہ بہت بڑی غلطی کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کو کون کتنا جھوٹا یا غلط ہے کے بجائے عوام مسائل کے حل کے لیے کوئی لائحہ عمل دینے ہر توجہ دینی چاہیے۔
اب زرا بات کرلیتے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی کو بلے کا نشان ملے گا بھی کہ نہیں۔ اور عمران خان اور ان کی جماعت نے آخر نوبت اس حد تک آنے کیوں دی؟ جہاں تک بات ہے بلے کے نشان کی تو حالات اور واقعات سے یہی لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کو شاید بلے کا نشان مشکل ہی ملے لیکن اس کی کافی حد تک ذمہ داری پی ٹی آئی کے اپنے اوپر بھی آتی ہے۔ ان کو معلوم تھا کہ انتخابات سے دور رکھنے کے ساتھ ان کو لیول پلیئنگ فیلڈ بھی نہیں ملے گی تو کم از کم اپنی طرف سے تو ان کو ایسا کوئی جواز ہی نہیں دینا چاہیے تھا۔ لیکن اس مصیبت کو پی ٹی آئی نے خود ہی اپنے گلے کا ہار بنایا۔
پی ٹی آئی کے پارٹی آئین میں انٹرا پارٹی الیکشن بارے درج ہے کہ کس طرح سے پارٹی عہدوں کے لیے انتخابات ہوں گے۔ لیکن اپنے ہی پارٹی دستور کو پس پشت ڈالتے ہوئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے ایک دو ہفتے پہلے ہی بیرسٹر گوہر کو پارٹی چیئرمین منتخب کرلیا۔ ان کو معلوم تھا کہ اگر پراسس فالو نہ کیا گیا تو کوئی نہ کوئی ان پارٹی انتخابات کو چیلنج کر دے گا اور پارٹی کا انتخابی نشان خطرے میں پڑ سکتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اس خطرے کو نظرانداز کرتے ہوئے عمران خان نے ایک ڈمی پارٹی چیئرمین منتخب کروالیا۔
ماضی میں بھی پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پر تنازعات کھڑے ہوئے تھے۔ پارٹی کے اندر سے ہی لوگوں نے انتخابات کے غیر شفاف ہونے کی شکایات لگائیں۔ ان شکایات کے ازالے کے لیے عمران خان نے سابق بیوروکریٹ و پارٹی رہنما تسنیم نورانی اور جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی کہ انٹرا پارٹی الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات کروائی جاسکیں۔ کمیٹی نے جب اپنی رپورٹ عمران خان کو پیش کی تو خان صاحب نے اس رپورٹ کو نظر انداز کردیا۔ انہی پارٹی انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے پارٹی کے اندر اختلافات پیدا ہوئے جس کی وجہ سے تسنیم نورانی اور جسٹس (ر) وجیہہ الدین جیسے سینیئر رہنما پارٹی سے مستعفی ہوگئے۔
اگر عمران خان ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے اجتناب کرتے تو آج پارٹی کے انتخابی نشان کے حصول کے لیے اس طرح انہیں تگ و دو نہ کرنا پڑتی۔ میرے نزدیک اب بھی عمران خان اور ان کی جماعت کے پاس واحد راستہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا کر انصاف حاصل کرنا ہونا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ وہ کسی ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر کے وقت ضائع کریں، بہتر ہے انصاف کے سب سے بڑے ادارے سے اپنی امیدیں وابستہ کریں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے کیونکہ کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے بعد اب ان کی اسکروٹنی کا عمل جاری ہے اور اس کے بعد جب امیدواروں کی فہرستیں منظور ہو جائیں گی تو ان کو انتخابی نشان الاٹ کردیے جائیں گے۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ سے انصاف لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ورنہ انتخابی سیاست میں پی ٹی آئی کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔