پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت لیاری سے الیکشن کیوں نہیں لڑ رہی؟

بدھ 27 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کراچی کا علاقہ لیاری جسے پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، میں اب نوبت یہ آچکی ہے کہ وہاں سے پیپلز پارٹی کا کوئی مرکزی لیڈر انتخابات میں حصہ نہیں لے رہا۔

اس حوالے سے مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں جیسے کہ شکور شاد کے ہاتھوں 2018 کے انتخابات میں بلاول بھٹو کی شکست۔ یہ ایسی شکست تھی ، جسے آج بھی نہ صرف یاد رکھا جا رہا ہے بلکہ اب بھی تجزیہ کاروں کے مطابق شکور شاد کے باعث بلاول بھٹو زرداری نہ ہی آصفہ بھٹو زرداری کو اس میدان میں اتارا گیا۔

اس حوالے سے ایک رائے یہ بھی ہے کہ نبیل گبول کے خوف سے بلاول بھٹو کو نہیں اتارا گیا کہ کہیں پارٹی میں این اے 239 میں نبیل گول کی صورت کہیں مزید دھڑے نہ بن جائے۔ ماہرین کے مطابق تیسری وجہ تحریک لبیک ہے جس نے گزشتہ انتخابات میں سیٹیں تو اتنی نہیں لیں لیکن ووٹ بڑی تعداد میں لیے اور لیاری سے ایک صوبائی نشست جیتنے میں کامیاب بھی ہوئی تھی۔

سینئر صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس نے وی نیوز کو بتایا کہ کہ ماسوائے لیاری کے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے کراچی سے بہت کم الیکشن لڑا ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کے میاں محمد شہباز شریف بھی 2018 میں کراچی سے انتخابات میں لڑے۔ اس سے پہلے مسلم لیگ ن کے قائد نے بھی کراچی سے الیکشن نہیں لڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کراچی کا مزاج مختلف ہے۔

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ن لیگ نے کراچی میں کبھی اس طرح کی سیاست کی ہی نہیں جس طرح جماعت اسلامی نے کی اور ایم کیو ایم نے کی۔کراچی کی سیاست باقی علاقوں کی نسبت بہت مختلف ہے۔

مظہر عباس کا کہنا ہے کہ لیاری سے 2018 میں بلاول بھٹو زرداری کا ہارنا پیپلز پارٹی کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ اب کی بار بلاول بھٹو زرداری کو نہ اتارنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کہیں وہ دوبارہ نہ ہار جائیں۔ اگر بلاول اسی حلقے سے ایک بار پھر کسی سے ہار جاتے ہیں تو یہ بھی بہت بڑا دھجکا ہوتا کیوں کہ لیاری کا نام پاکستان پیپلز پارٹی سے جڑا رہا ہے۔

مظہر عباس کا کہنا ہے کہ لیاری کے انتخابات میں کچھ ڈی لیمیٹیشن کا عنصر بھی رہا۔ تحریک لبیک کا بھی بہت بڑا اثر رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسے سیٹیں تو نہیں ملیں لیکن انہوں نے ووٹ بڑی تعداد میں لیے۔ یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ بلاول نے لیاری سے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہو۔

سینئیر صحافی اےایچ خانزادہ کا کہنا ہے کہ اس کا اصل جواب تو پیپلز پارٹی ہی دے سکتی ہے لیکن اس کے سیاسی محرکات بہت سارے ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لیاری سے بلاول بھٹو زرداری کی گزشتہ شکست بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔

اے ایچ خانزادہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کے مقابلے میں پیپلزپارٹی ہی کے ایک سابق رکن شکور شاد کی فتح ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اپنے آپ کو سندھ  بلکہ پاکستان کی بڑی جماعت سمجھتی ہے، تاہم سندھ میں گزشتہ 15 برسوں سے حکومت کرنے کے بعد ، اس کے پاس اپنی کارکردگی بیان کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

اے ایچ خانزادہ کہتے ہیں کہ سندھ کا عام آدمی کتنا پریشان ہے، وہ سندھ کے شہر یا دیہات میں رہتا ہو، وہ کسان ہو، تاجر ہو یا دکاندار ہو۔ سندھ کا عام آدمی اس قدر مجبور اور بے بس ہے کہ تمام مظالم سہنے کے باوجود کچھ کہہ بھی نہیں سکتا کیوں کہ اس کے سر پر وڈیرے کی تلوار لٹک رہی ہے ۔

ایچ خانزادہ کے مطابق پیپلز پارٹی کی پچھلے 15 سال کی کارکردگی یہ ہے کہ پینے کا صاف پانی نہیں ہے، تعلیمی نظام تباہ ہو چکا ہے، بورڈ سے پرچے آؤٹ ہوتے ہیں اور پیسے دے کر نمبر بڑھائے جاتے ہیں، کسی سرکاری ادارے سے کوئی کام بغیر رشوت کے نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف ایک حوالے سے  سندھ حکومت کی تعریف بنتی ہے اور وہ ہے میڈیکل شعبے کا ایک حصہ۔  شعبہ صحت میں کچھ کام ایسے کیے ہیں جس کی تعریف ہو سکتی ہے۔

اگر پیپلز پارٹی یہ کہے کہ اس نے لوگوں کو روزگار دیا تو کون سا احسان کیا؟ اگر صحت کی سہولت دی تو کون سا احسان کیا؟ پیپلز پارٹی کے پاس دکھانے کو کچھ نہیں ہے۔ ہاں وہ عام آدمی کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر کچھ پیسے ضرور دیتی ہے، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ لیاری سے پیپلز پارٹی کا خاتمہ ہونے کی ابتداء ہو چکی ہے، اب دیکھتے ہیں کہ انتہاء کب ہوتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp