سال 2023: کتنے پاکستانیوں نے ملک کو خیرباد کہا؟

جمعہ 29 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی بڑی تعداد میں بیرون ملک منتقلی کا سلسلہ 2023 میں بھی جاری رہا جن کی ایک بڑی تعداد آئی ٹی اور میڈیکل سیکٹرز سے تعلق رکھتی ہے اور ان میں سافٹ وئیر انجینیئرز، آئی ٹی انجینیئرز، نرسز اور فارماسسٹس شامل ہیں۔

رواں سال کا آخری سورج اب غروب ہونے کے قریب ہے اور ادارہ ماورائے بحر ملازمت و تارکین وطن کے مطابق اس برس ملک چھوڑجانے والے افراد کی تعداد 8 لاکھ 5 ہزار88 ہو چکی ہے۔

گزشتہ برس ملک کو خیرباد کہنے والوں کی تعداد تقریبا 8 لاکھ 32 ہزار تھی۔ گزشتہ برس بھی ملک سے نوجوانوں کا جانا موضوع بحث رہا۔ کسی نے اسے برین ڈرین کہا تو کسی نے  ملکی معیشت کے لیے خوش آئند قرار دیا لیکن کیا ملک سے نوجوانوں کا تیزی سے بیرون ملک منتقل ہونا فائدہ مند ہے یا پھر نقصان دہ؟

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی جواد سہراب کا کہنا تھا کہ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ پاکستان سے باہر لوگ جا رہے ہیں تو برین ڈرین ہو رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ صرف ایک پراپگنڈہ ہے کیونکہ پاکستان کی تقریبا 25 کروڑ آبادی ہے جس میں سے سالانہ اگر 8 لاکھ لوگ بھی چلے جاتے ہیں تو یہ کل آبادی کا 0.3 فیصد بنتا ہے جبکہ اگر یہ تناسب 3 فیصد ہو تب بھی یہ کوئی بڑی تعداد نہیں ہے۔

جواد سہراب نے کہا کہ ویژن 2030 کے تحت پاکستان سے 10 لاکھ لوگ جایا کریں گے اور یہ ہرگز برین ڈرین نہیں کیوں کہ اگر کوئی 15 کروڑ لوگ جائیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ برین ڈرین ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر لوگ بیرون ممالک جا رہے ہیں تو اسی حساب سے ہر سال یوتھ میں اس سے ڈبل اضافہ بھی ہو رہا ہے اس لیے جو افراد جائیں گے وہ وہاں جا کر پاکستان میں اپنے گھر والوں کو اچھا لائف اسٹائل دے پائیں گے، زرمبادلہ آئے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے افراد جب وطن واپس آئیں گے تو ان کے ہاتھ میں ہنر ہوگا پھر وہ پاکستان میں بزنس کریں گے اور ان پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع فراہم کریں گے جو باہر نہیں جا سکتے اور یوں پاکستان ترقی کرے گا۔

کیا پاکستان کی ترسیلات زر میں اضافہ ہوا؟

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے جاری اعداد وشمار کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلاتِ زر کی مد میں نومبر 2023 میں 2.3 ارب ڈالر موصول ہوئے جبکہ گزشتہ برس اسی مہینے میں 2.2 ارب ڈالر موصول ہوئے تھے۔

نوجوان آخر باہر کیوں جانا چاہتے ہیں؟

نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ملک میں نوکریاں نہیں ہیں اور دوسری جانب اداروں سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ ٹیلنٹ ہی نہیں ہے۔ یہاں سوال ملک کے تعلیمی نظام پر بھی اٹھتا ہے کہ آخر یونیورسٹیوں میں 4 سال پڑھ کر ڈگری حاصل کرنے والے طلبا و طالبات نوکریاں حاصل کرنے میں کیوں ناکام ہیں۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پریمیئر انٹرنیشنل اسپتال سے وابستہ آئی سی یو اسپیشلسٹ ڈاکٹر فضل ربی نے پاکستان سے ڈاکٹرز کے بیرون ملک جانے کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کے معاشی حالات کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں ٹیلنٹ تو بہت ہے مگر بدقسمتی سے اس کی قدر نہیں ہے۔

ڈاکٹر فضل ربی نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹرز بے روزگار ہیں جس کی وجہ میرٹ کا فقدان ہے لہٰذا اس صورت میں ان کے پاس بیرونی ممالک جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔

’کس سیکٹر میں کتنی آسامیاں ہیں کبھی سروے ہی نہیں ہوا‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں ڈاکٹرز کی بے قدری کا عالم یہ ہے کہ اگر کوئی سرجن ہے تو اس کو دور دراز کسی گاؤں کے ایسے اسپتال میں منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں آپریشن تھیٹر ہی نہ ہو‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں کبھی کوئی مارکیٹ سروے ہوا ہی نہیں کہ کس سیکٹر میں کتنی آسامیوں کی ضرورت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایک طالب علم پرائیویٹ سیکٹر میں ایک کروڑ روپے لگا کر تعلیم حاصل کر کے آتا ہے اور اس کو 50 یا 60 ہزار روپے کی نوکری ملتی ہے اور پھر اگر تنخواہ بھی 2 یا 3 ماہ بعد ملے تو مایوسی کا کیا عالم ہو گا۔

انہوں نے کہاکہ ایسی صورتحال میں تو نوجوان ملک چھوڑ کر جانا ہی چاہیں گے جبکہ اس کا فائدہ ان ممالک کو ہو رہا ہے جہاں پڑھے لکھے نوجوان جا رہے ہیں جن میں یورپ اور گلف سرفہرست ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ باہر کے ممالک کو بہت کم پیسوں میں اچھے اسکلڈ لوگ مل جاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ جلد اس بات کا ادراک کر لیا جائے کہ نوجوان پاکستان کا اثاثہ ہیں اور اگر وہ ایسے ہی جاتے رہیں گے تو ملک کا مزید برا حال ہو جائے گا۔

پاکستان میں نوکریاں ہیں مگر ان افراد کے لیے جنہیں کام آتا ہے، آئی ٹی ایکسپرٹ

آئی ٹی کمپنی ’بیلا کارپ‘ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر تمجید اعجازی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وبا کے بعد سے پوری دنیا میں ریموٹ جابز کا کلچر بہت عام ہو گیا ہے اور جتنے بھی پلیٹ فارمز ہیں جیسے اپ ورک، فائیور وغیرہ یہاں پر جو تنخواہ آفر کی جاتی ہے اس کی شروعات 4 یا 5 ہزار ڈالر سے ہوتی ہے اور پاکستان میں کوئی آئی ٹی گریجویٹ نوکری کے لیے جاتا ہے تو اسے 50 یا 60 ہزار تنخواہ دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریموٹ جابز کے ذریعے لوگوں کو اتنی آگاہی آ گئی ہے کہ بیرون ملک آئی ٹی فیلڈ کے لوگوں کی کتنی ڈیمانڈ ہے اور انہیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اگر وہ کہیں باہر جا کر نوکری تلاش کریں تو انہیں اتنے مسائل نہیں ہوں گے اور 6 مہینوں کے اندر ایک اچھی زندگی گزارنے کی شروعات کر سکتے ہیں۔

تمجید اعجازی نے کہا کہ ’میرے خیال میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں آئی ٹی سے منسلک نوکریاں نہیں ہیں تو وہ بلکل غلط کہتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ جو طلبا بی یا سی کلاس کی یونیورسٹیوں سے پڑھتے ہیں ان کو انٹرویو کے دوران اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کے پاس وہ اسکلز ہیں ہی نہیں جو مارکیٹ ڈیمانڈ کر رہی ہے‘۔

’فرسودہ نصاب اور گریجویٹس کا غیر پیشہ ورانہ رویہ ابتری کی وجوہات

تمجید اعجازی کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں نوکریاں ان افراد کے لیے نہیں ہیں جن کو کام نہیں آتا اور اس کی بنیادی وجہ یونیورسٹیوں میں 15 سے 20 سال پرانا نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مارکیٹ میں ڈیمانڈ اور سپلائی کا جو فرق ہے وہ ایک بہت ہی بڑی وجہ ہے اور دوسری بڑی وجہ پاکستان میں گریجویٹس کا پروفیشنل رویہ نہ ہونا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان مسائل کو حل کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو اپ ڈیٹ کیا جائے اور انٹرنیشنل یونیورسٹیوں کے ساتھ اشتراک کیا جائے اور طلبا کو ایسی ٹریننگ دی جائے کہ وہ گریجویٹ ہونے کے بعد مارکیٹ میں نوکریاں بآسانی حاصل کر سکیں۔

پاکستان میں درسگاہیں محض کاروبار ہیں، پروفیسر نجی یونیورسٹی

برین ڈرین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی کے پروفیسر نے کہا کہ پاکستان میں درسگاہیں محض کاروبار ہیں جن کا مقصد ڈگری کا ایک صفحہ دینا ہے اور ایچ ای سی کا یہ حال ہے کہ کوئی پالیسی ہی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں 20 سال پرانا کورس طلبا کو پڑھایا جاتا ہے اور وزیٹنگ فیکلٹی کے نام پر کم پیسوں میں فریش ماسٹرز کے طلبا کو یونیورسٹیوں میں بی ایس لیول پر پڑھانے کا موقع دیا جاتا ہے جو طلبا سے گپ شپ میں ہی پورا ٹائم ضائع کر دیتے ہیں اور طلبا کو وہ اساتذہ اس وقت اچھے بھی بہت لگ رہے ہوتے ہیں کیونکہ نہ ان پر سختی ہوتی ہے اور نہ ہی پڑھائی کا پریشر اور اسی طرح ڈگری ختم ہو جاتی ہے۔

پروفیسر کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیاں کروڑوں روپے کما کر آخر میں بڑے فخر سے کاغذ کا ایک ٹکڑا ڈگری کے نام پر طلبا کے ہاتھ میں تھما دیتی ہیں اب جب تعلیمی نظام ہی خراب ہوگا تو طلبا مارکیٹ میں جا کر کیا کارکردگی دکھائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں اعلیٰ یونیورسٹیاں ہیں مگر ہیں چند ایک ہی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اشد ضرورت ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام میں بہتری لائے ورنہ نوجوان جو ہمارا اثاثہ ہیں اور ملک دونوں کا مستقبل روشن نہیں ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp