گزشتہ سال پاکستان کی معاشی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا، ایک سال میں ڈالر کی قیمت 226 روپے سے بڑھ کر ستمبر میں 308 تک پہنچی چکی تھی، جس کے بعد ڈالر کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائیاں شروع ہوئیں تو ڈالر کی قیمت 269 روپے تک آ گئی۔ تاہم سال کے اختتام پر ڈالر کی قیمت اضافے کے بعد 278.73 روپے رہی۔ اس طرح مجموعی طور پر ایک سال میں ڈالر کی قیمت میں 52 روپے سے زائد کا اضافہ ہوا۔ سال 2022 میں ڈالر کی قیمت میں 48 روپے، جبکہ سال 2021 میں صرف 20 روپے سے بھی کم کا اضافہ ہوا تھا۔
وی نیوز نے مختلف معاشی تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ سال 2024 میں ڈالر کا متوقع طور پر کیا ریٹ رہے گا۔
’2024 میں ڈالر کی قیمت 250 روپے سے بھی کم ہوسکتی ہے‘
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ملک بوستان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر عام انتخابات کا انعقاد وقت پر ہو اور تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرلیں تو اس سے ملک میں سیاسی استحکام کے ساتھ معاشی استحکام بھی آئے گا، اسی طرح اگر اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں تو سال 2024 میں ڈالر کی قیمت 250 روپے سے بھی کم ہو سکتی ہے، لیکن اگر انتخابات نہ ہوئے یا کسی بڑی جماعت نے نتائج تسلیم نہ کیے تو ڈالر بے قابو ہوسکتا ہے اور پھر اس کی قیمت کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں، معیشت کا دروازہ سیاست کے دروازے سے گزر کر آتا ہے۔
’سرمایہ کاری کرنے والے ممالک کی نظر عام انتخابات پر ہے‘
ملک بوستان نے کہا کہ حکومت نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی تشکیل دی ہے جس کے تحت آئندہ 10 سال میں 112 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان آئے گی جس کے معاہدوں پر دستخط بھی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کویت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد اور اس کے نتیجے میں سیاسی استحکام ہو، اسی کے ساتھ ان ممالک نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنی ہے جس سے ڈالر کے ریٹ میں مزید کمی ہو جائے گی۔
’روپے کو مضبوط کرنے میں آرمی چیف نے کردار ادا کیا‘
ملک بوستان نے کہا کہ اس وقت پاکستانی شہریوں کے علاوہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے ممالک کی نظر عام انتخابات پر ہے، اب یہ سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ ملک کو اس مشکل سے نکالنے میں کیسے اپنا کردار ادا کرتے ہیں، اس وقت جس طرح کے بیانات سیاسی قائدین دے رہے ہیں وہ سیاست دانوں کو زیب نہیں دیتے، اس سے سیاسی عدم استحکام مزید بڑھے گا، اس سے پاکستان کا دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے، پاکستان میں اس وقت جو بھی معاشی و سیاسی استحکام آیا ہے اس میں آرمی چیف نے بھر پور کردار ادا کیا ہے، آرمی چیف نے ملکی سلامتی، دہشت گردی کے ساتھ ساتھ معاشی سلامتی کو بھی اہمیت دی ہے، یہی وجہ ہے کہ روپیہ مضبوط ہو رہا ہے جبکہ اسٹاک ایکسچینج نے تاریخ کی بلند ترین سطح عبور کی ہے، پہلے ہر معاشی اشاریہ منفی تھا جو اب مثبت ہو گیا ہے۔
’آئی ایم ایف پروگرام سے شرح سود نیچے آسکتی ہے‘
معاشی ماہر شہریار بٹ نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سال 2023 پاکستانی عوام کے لیے مہنگائی کے حوالے سے بدترین سال ثابت ہوا ہے، مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے تجاوز کرگئی، سال 2024 میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کچھ کمی متوقع ہے تاہم بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے باعث عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، اگر آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پاکستان کو 700 ملین ڈالر کا قرض مل جاتا ہے تو شرح سود نیچے آئے گی جس سے مہنگائی میں کمی ہوگی۔
مزید پڑھیں
شہریار بٹ نے کہا کہ حکومتی اقدامات کے باعث پاکستان میں ایکسچینج ریٹ مستحکم ہوگیا ہے، جب سے افغانستان اسمگل ہونے والے ڈالرز کو روکا گیا ہے ڈالر کافی نیچے آیا ہے، اگر حکومتی اقدامات اسی طرح جاری رہتے ہیں تو روپیہ مزید مستحکم ہو جائے گا اور اگر دوست ممالک کی سرمایہ کاری آتی ہے تو سال 2024 میں ڈالر کا ریٹ 260 روپے سے بھی کم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے معاشی حالات میں بہتری کے لیے دوست ممالک کی سرمایہ کاری کی بھی ضرورت ہے، جولائی 2024 تک پاکستان کو 4 ارب ڈالر چاہئیں، اور مالی سال 2024-25 کے لیے مزید 20 سے 25 ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی تو اس کے لیے ہمیں بڑے آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہو گی۔
’رواں سال ڈالر اور اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوگی‘
ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنوری سے پاکستان کو ملنے والی امداد اور قرض بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے اور ریزرو بڑھیں گے، سال 2024 میں روپے کی قدر مستحکم رہے گی، آئندہ 6 ماہ میں ڈالر کی قیمت سمیت دیگر اشیا کی قیمتیں 5 فیصد تک کم ہوں گی، حکومت کو اپنا مالیاتی خسارہ کم کرنے کی بھی ضرورت ہے، اس سے بھی مہنگائی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔