امریکا کی معروف درسگاہ ہارورڈ یونیورسٹی کی صدر کلاڈین گے نے ادبی سرقہ کے الزامات اور کانگریس کی سماعت پر تنقید کے شور میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔
کانگریس کی سماعت کے دوران ہارورڈ کی پہلی سیاہ فام صدر یہ کہنے سے قاصر تھیں کہ آیا کیمپس میں یہودیوں کی نسل کشی کے مطالبات ادارے کے طرزِ عمل کی پالیسی کی خلاف ورزی کریں گے یا نہیں۔
منگل کو اپنی علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے ایک بیان میں کلاڈین گے نے لکھا ہے کہ ایک بوجھل دل مگر ہارورڈ کے لیے گہری محبت کے ساتھ یہ بتانا چاہتی ہیں کہ وہ صدر کے عہدے سے سبکدوش ہورہی ہیں۔
’نفرت کا مقابلہ کرنے اور علمی احتیاط کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے عزم و ارادے پر شک کا اظہار تکلیف دہ رہا ہے… اور ذاتی حملوں اور نسلی دشمنیوں کی وجہ سے دھمکیوں کا نشانہ بننا خوفناک ہے۔‘
ہارورڈ یونیورسٹی کی 387 سالہ تاریخ میں کلاڈین گے جولائی 2023 اس معروف تعلیمی ادارے کی پہلی سیاہ فام صدر بنی تھیں، لیکن گزشتہ مہینے کلاڈین گے، میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے صدر کے ساتھ، پوچھے گئے سوالات پر اپنے ’وکیلانہ جوابات‘ کی وجہ سے تنقید کی زد میں آگئے تھے۔
نیو یارک کے ریپبلکن نمائندے ایلیس اسٹیفانک نے ان معروف امریکی تعلیمی اداروں کے سربراہوں سے دریافت کیا تھا کہ کیا یہودیوں کی نسل کشی کا مطالبہ ان کے تعلیمی اداروں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرے گا یا نہیں۔.
تینوں صدور کو ریپبلکن کی زیر قیادت ہاؤس کمیٹی برائے تعلیم اور افرادی قوت کے سامنے ان الزامات کا جواب دینے کے لیے بلایا گیا تھا کہ غزہ پر اسرائیل کے حملے اور فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے بعد ’سامیت دشمنی‘ میں اضافے کی روشنی میں یونیورسٹیاں یہودی طلباء کے تحفظ میں ناکام ہو رہی ہیں۔
پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کلاڈین گے کا کہنا تھا کہ یہ سیاق و سباق پر منحصر ہے اور جب تقریر اخلاق سے تجاوز کرتی ہے تو ہماری پالیسیوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے، لیکن انہیں اپنے جواب پر ریپبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دو ڈیموکریٹس سمیت 70 سے زائد امریکی قانون سازوں نے ہارورڈ یونیورسٹی کی صدر کلاڈین گے کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جب کہ ہارورڈ یونیورسٹی کے متعدد سابق طلبا اورعطیہ دہندگان نے بھی ان کی رخصتی کا تقاضا کیا، تاہم ہارورڈ یونیورسٹی کے 700 سے زیادہ فیکلٹی ممبران نے ایک خط پر دستخط کرتے ہوئے کلاڈین گے کی حمایت کی تھی۔
بعد میں کلاڈین گے نے اپنے تبصروں کے لیے ہارورڈ کرمسن سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ گرما گرم تبادلے میں پھنس کے باعث یہودی طلبا کے خلاف تشدد کی دھمکیوں کی مناسب مذمت کرنے میں ناکام رہی تھیں۔
’مجھے اس لمحے میں جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ اپنی رہنمائی کی سچائی کی جانب لوٹنا تھا کہ یہودی برادری کے خلاف تشدد اور یہودی طلبا کو دھمکیوں کی ہارورڈ یونیورسٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے اور اسے ہمیشہ چیلنج کیا جائے گا۔‘