کیا 52 فیصد مقبولیت والے نواز شریف ایک ایسے ماحول میں وزیراعظم بننا چاہیں گے جہاں پالیٹیکل اسپیس ختم ہوکر رہ گئی ہو؟
اگر سیاسی کارکن کو ایک سیاسی نظام میں اپنا کردار ادا کرنے کی آزادی میسر نہ ہو، اگر سیاسی جماعتیں اپنی پالیسیاں بنانے اور فیصلے کرنے میں آزاد نہ ہوں، اگر ایک سیاسی حکومت کے ہاتھ مکمل طور پر بندھے ہوئے ہوں، وہ کسی طاقتور گروہ کے اشاروں پر ہی ناچتی رہے تو اس نظام کو کوئی بھی دوسرا، تیسرا نام دیا جاسکتا ہے لیکن ’جمہوری‘ ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ایک جمہوری معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہاں پالیٹیکل اسپیس نہیں ہوگی۔ لیکن پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں سیاسی اسپیس کے بغیر ہی نظام کو جمہوری قرار دیا جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ ایسے نظام کی بدترین خرابیوں کو ہم جھیل رہے ہیں۔
2018 کے عام انتخابات سے پہلے جس طرح سیاست کے لیے جگہ تنگ کی گئی، اور جناب عمران خان نے وزیراعظم بن کر جس انداز میں سیاست کا گھیرا مزید تنگ کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انھوں نے اپوزیشن کی تو اپنے آپ کو امپائر کی انگلی کے ساتھ باندھے رکھا، حکمران بنے تو ہر قدم اٹھاتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کو اپنی بیساکھیاں بنائے رکھا۔ وہ ان بیساکھیوں کو جدا کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے تھے۔
وہ پہلے سیاست دان تھے جو سمجھتے تھے کہ ایجنسیاں سیاست دانوں کی فون کالز ٹیپ کریں تو جائز ہے، وہ پہلے حکمران تھے جو ایک آرمی چیف کو برسرعام ’باپ‘ قرار دیتے تھے۔ بعدازاں جب انھوں نے پھرپھڑانے کی کوشش کی تو اسپیس ہی نہ تھی۔ اس کے بعد انھوں نے فوری طور پر ترکیہ کے رجب طیب ایردوان کی طرح جمہوریت کا علم بلند کرنے کی کوشش کی، اپنے نوجوانوں کو ٹینکوں کے آگے لٹانے کی کوشش کی لیکن اس کی بھی اسپیس نہیں تھی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے، اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔
عمران خان کے بعد اگلے وزیر اعظم جناب شہباز شریف نے بھی زیرو پالیٹیکل اسپیس کے ساتھ کام کرنے کو دانش مندی قرار دیا۔ ان دونوں صاحبان نے ایوان وزیراعظم میں کچھ عرصہ گزارنے کا اعزاز حاصل کرلیا لیکن سیاست کا ناطقہ بند کردیا۔ یوں اب پاکستانی قوم ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جہاں پالیٹیکل اسپیس حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔
کہا جاتا ہے کہ نواز شریف اس بندوبست کے خلاف تھے جو شہباز شریف نے کیا تھا اور جسے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کی حمایت حاصل تھی۔ جناب نواز شریف کا خیال تھا کہ ہائبرڈ رجیم کے خالق اپنا گند خود صاف کریں لیکن اس کے بعد کا سارا عمل مکمل طور پر سیاسی ہونا چاہیے۔ وہ عمران خان کے بعد وزارت عظمیٰ لینے کے حق میں نہیں تھے۔ تاہم جناب شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کام کرنے اور کام کرتے رہنے کو ’حکمت‘ کا تقاضا قرار دیتے تھے۔ ان کے اس ’حکیمانہ‘ طرزعمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ انھیں از خود معمولی فیصلے بھی کرنے کی اجازت نہ تھی۔
سب سے مضحکہ خیز صورت حال نگراں وزیراعظم کی تقرری دوران دیکھنے کو ملی۔ یہ واقعہ جس انداز میں ہوا، اسے یاد کرنے سے بھی لوگ ہنستے ہنستے دوہرے ہوجاتے ہیں۔
ایک عام تاثر ہے کہ آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بطن سے جو حکومت جنم لے گی، اس کے سربراہ جناب نواز شریف ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ وہ زیرو پالیٹیکل اسپیس میں کام کرسکیں گے؟ ان کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے بعد پوری آزادی اور خودمختاری سے حکومت کریں گے۔ کیا واقعی وہ ایسا کرسکیں گے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے دو منظرناموں پر نظر رکھنا ہوگی۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران نواز شریف کی پاکستان میں مقبولیت کا گراف غیر معمولی طور پر بلند ہوا ہے۔ ’گیلانی اینڈ گیلپ پاکستان‘ رائے عامہ کا جائزہ لینے والا ایک معروف ادارہ ہے، گزشتہ چالیس برس سے پاکستان میں کام کر رہا ہے۔ اس نے گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران مسلسل اور متعدد بار جائزہ لیا کہ پاکستانی ووٹرز کس سیاسی جماعت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے کا سوچ رہے ہیں؟ کس سیاسی لیڈر کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور کس کی کم ہو رہی ہے؟
جون دو ہزار تئیس میں جناب محمد نواز شریف کی مقبولیت کی شرح 36 فیصد تک گر گئی تھی جب کہ جناب عمران خان 60 فیصد پر تھے۔ یقینی طور پر نوازشریف کی مقبولیت کم کرنے اور عمران خان کی مقبولیت کو بلند تر کرنے میں جناب شہباز شریف کی حکومت کے ’مشکل فیصلوں‘ کا عمل دخل ہے۔ تاہم اس کے بعد نواز شریف وطن واپس آئے، انھوں نے قوم کو یاد کرایا کہ 2018 سے پہلے پاکستان میں زندگی کیسی تھی، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کیا تھیں اور پھر عمران خان دور میں مہنگائی کس سطح پر پہنچی۔ مسلم لیگ ن نے اس حوالے سے گراف ڈیزائن کرکے قوم کے سامنے رکھے۔ اس کا خاطرخواہ اثر ہوا۔
دسمبر 2023 یعنی گزشتہ ماہ جب رائے عامہ کا جائزہ لیا گیا تو نواز شریف کی مقبولیت کی شرح 52 فیصد ہوچکی تھی جبکہ عمران خان کے بارے میں لوگوں کا تاثر نسبتا خراب ہوا۔ اب وہ 60 فیصد سے کم ہوکر57 فیصد تک پہنچ گئی۔ وہ اب بھی بحیثیت مجموعی قومی سطح پر نواز شریف سے زیادہ مقبول ہیں۔ البتہ اگر صرف صوبہ پنجاب کو دیکھا جائے تو بحیثیت مجموعی پنجاب میں نواز شریف کی مقبولیت 60 فیصد اور عمران خان کی 53 فیصد ہے۔ نوازشریف کو مغربی اور جنوبی پنجاب میں برتری حاصل ہے جبکہ عمران خان کو شمالی پنجاب اور وسطی پنجاب میں۔
دوسرا منظرنامہ یہ ہے کہ نواز شریف کو مسلسل پیغامات بھیجے جا رہے ہیں کہ وہ چوتھی بار وزیراعظم بننے کی سوچ ترک کردیں، اپنی جگہ کسی ایسے فرد کو وزیر اعظم بنائیں جو شہباز شریف کی طرح ایک خاص حد تک کی اوقات میں رہ کر کام کرے۔ گزشتہ دنوں مسلم لیگ ن ہی کے رہنما اور قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے سربراہ جناب مشاہد حسین سید نے بھی نواز شریف کو مشورہ دیا کہ وہ دل بڑا کریں،وزیراعظم بننے والا چکر چھوڑیں اور ہیڈ آف اسٹیٹ یعنی صدر مملکت بن جائیں۔ ان کے بقول یہ ملک اور جمہوریت کے لیے بہتر ہوگا۔
مشاہد حسین سید کا کہنا تھا’ میں نہیں چاہتا کہ نواز شریف چوتھی بار پھر نکالے جائیں، کیونکہ اب ہائبرڈ پلس سسٹم ہے جس میں نواز شریف کا گزارہ نہیں ہوسکتا‘۔
مشاہد حسین سید کے اس ’پیغام‘ پر نواز شریف کا ردعمل کیا ہوگا؟ ممکن ہے کہ وہ انتخابی مہم کے دوران اس پر بات کریں کیونکہ اب تک وہ انتخابی ٹکٹیں تقسیم کر رہے تھے۔ اب جب کہ انھیں اس کام سے فرصت مل گئی ہے، وہ انتخابی مہم کے لیے میدان میں اتریں گے اور اپنا بیانیہ لوگوں کے سامنے رکھیں گے۔
نواز شریف کو بخوبی جاننے والے لوگ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اس قدر کم اسپیس میں رہ کر کام کرنے والے بندے نہیں ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ بہرصورت چوتھی بار وزیراعظم بننا چاہتے ہیں، اور پوری آزادی، خودمختاری سے حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ اس دوران وہ ملک میں ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں جس میں ہر کوئی محض اپنے دائرے میں رہ کر کام کرے، کسی دوسرے کی اسپیس پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ملک اور جمہوریت کے لیے یہ ناگزیر ہے۔
ان کے اسی بیانیے نے ان کی مقبولیت کو چھتیس سے باون فیصد کیا ہے۔ پھر بھلا وہ اس بیانیہ اور اس روش کو کیوں ترک کریں گے؟