تائیوان کے صدارتی انتخابات میں چین کے حمایت یافتہ اُمیدوار کو شکست ہو گئی ہے جب کہ حکمراں ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کے نائب صدر لائی چنگ تی عام انتخابات میں ناقابل تسخیر برتری حاصل کرنے کے بعد جزیرے کے حکمران بن گئے ہیں۔
چین کی حمایت یافتہ تائیوان کی حزب اختلاف کی جماعتوں، نیو تائی پے شہر کے میئر ہو یو یو کی قیادت میں کومنتانگ اور کو وین جے کی تائیوان کی پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے تائیپے میں ہزاروں حامیوں کے سامنے کی جانے والی تقاریر میں اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔
تائیوان کے لاکھوں لوگوں نے چین کی جانب سے ان دھمکیوں کے باوجود نئے صدر کے حق میں ووٹ دیا کہ غلط رہنما کا انتخاب خود مختار جزیرے پر جنگ کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
بیجنگ نے انتخابات سے قبل موجودہ نائب صدر لائی چنگ تی کو ایک خطرناک ‘علیحدگی پسند’ قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور ووٹنگ کے موقع پر اس کی وزارت دفاع نے تائیوان کی آزادی کی جانب کسی بھی اقدام کو کچلنے کا عہد کیا تھا۔
چین 180 کلومیٹر طویل آبنائے پر مشتمل سرزمین سے الگ ہونے والے خود مختار تائیوان کو اپنا ملک قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ اسے اپنے ملک میں شامل کرنے کے لیے طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرے گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جزیرے بھر میں تقریباً 18 ہزار پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ صبح 8 بجے شروع ہوئی۔ متعدد مقامی میڈیا اداروں کے مطابق 64 سالہ لائی چنگ تی، جو طویل عرصے سے انتخابات جیتتے آ رہے ہیں، نے اب تک گنتی کیے گئے تقریباً 13 ملین ووٹوں میں سے 40 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں، جس میں 70.6 فیصد ٹرن آؤٹ دیکھا گیا۔ مسٹر ہو نے 33 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ مسٹر کو 26 فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔
واضح رہے کہ لائی چنگ تی کو اس برس بھی سب سے اہم جس مسئلے کا سامنا رہے گا وہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو کیسے بہتر بنائیں گے۔
لائی چنگ تی کو واشنگٹن اور دیگر ہم خیال جمہوریتوں کا بھی تعاون حاصل ہے۔ ووٹرز کا کہنا تھا کہ یہ تائیوان کی سخت محنت سے جیتی ہوئی جمہوریت ہے۔ ہم سب کو اپنی جمہوریت کا احترام کرنا چاہیے اور جوش و خروش سے ووٹ دینا چاہیے۔
تائیوان میں سخت انتخابی قوانین ہیں جو میڈیا کو رائے دہندگان سے پولنگ کے دن ان کے مخصوص انتخاب کے بارے میں پوچھنے سے روکتے ہیں۔
تائیوان میں انتخابات کے 10 روز کے اندر انتخابات کی اشاعت پر پابندی عائد ہے لیکن سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ 64 سالہ لائی کے اعلیٰ ترین نشست جیتنے کی توقع ہے، حالانکہ ان کی جماعت کے پارلیمانی اکثریت کھونے کا امکان ہے۔
بحیرہ جنوبی چین کو بحر الکاہل سے ملانے والے ایک اہم بحری گیٹ وے پر واقع تائیوان ایک پاور ہاؤس سیمی کنڈکٹر صنعت کا گھر ہے جو قیمتی مائیکروچپس تیار کرتی ہے جو اسمارٹ فونز سے لے کر کاروں اور میزائلوں تک ہر چیز کو طاقت فراہم کرنے والی عالمی معیشت کی جان ہے۔
چین نے حالیہ برسوں میں تائیوان پر فوجی دباؤ میں اضافہ کیا ہے، جس سے وقتا فوقتا ممکنہ حملے کے بارے میں خدشات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے نئے سال کے موقع پر اپنے حالیہ خطاب میں کہا تھا کہ تائیوان کا چین کے ساتھ اتحاد ناگزیر ہے۔