پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین نورعالم خان نے ایک بڑا حکم جاری کرتے ہوئے ’ ون کانسٹیٹیوشن ایونیو‘ کی لیز منسوخ کردی ، اور موقع پر پہنچ کر سی ڈی اے کو فی الفور ٹوئن ٹاورز کو اپنے قبضہ میں لینے کا حکم دیدیا ۔
آج چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نورعالم خان اسلام آباد میں ’ ون کانسٹیٹیوشن ایونیو ‘ کے ذمہ داران کی جانب سے لیز کی ادائیگی نہ کرنے کے سبب موقع پر پہنچ گئے اور ٹوئن ٹاورز کو سیل کرنے کے احکامات دیدیئے۔
چیئرمین ’ پی اے سی ‘ کے ساتھ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ممبران ، آڈیٹر جنرل آف پاکستان ، ڈی جی ایف آئی اے ، احتساب بیورو کے حکام ، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ، چیف کمشنر اسلام آباد اورچیئرمین سی ڈی اے سمیت دیگرحکام بھی موجود تھے۔
نورعالم خان نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ساڑھے 13 ایکڑ زمین ہے جس کی مالیت کھربوں میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ غریبوں سے تو سب پوچھا جاتا ہے مگراشرافیہ پر کوئی بھی ہاتھ نہیں ڈالتا۔
نورعالم خان نے کہا کہ یہاں پر جو ٹاورز بنائے گئے ہیں ، غیر قانونی ہیں ۔ جو ٹاورز اصل نقشے کے مطابق بننے تھے، وہ نہیں بنے۔ اس کےعلاوہ یہاں ایک اورغیر قانونی پلازہ بنایا جا رہا تھا جس پر ہم نے کام رکوا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان غیرقانونی پلازوں کی تعمیر کے دوران میں جتنی بھی حکومتیں گزریں ، سب اس کی ذمہ دار ہیں۔
جن لوگوں نے رقم کی ادائیگی کی ہوئی ہے لیکن انھیں فلیٹس نہیں دیئے گئے ، ان کے حقوق کا تحفظ کیاجائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ ایک ایسا کیس بھی سامنے آیا ہے کہ ایک خاتون نے رقم کی ادائیگی کی ہوئی تھی لیکن ان سے مزید 2کروڑروپے ادا کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
ون کانسٹیٹیوشن ایونیو ، تنازعہ کیا ہے؟
کیپیٹل ڈیولپنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے 2005 میں وفاقی دارالحکومت کی شاہراہ دستور پر ایک لگژری ہوٹل کے قیام کے لئے ’ بسم اللہ نا گرا پیرا گون ‘ کو 13 ایکڑ اراضی 99 سال کے لیے لیز پر دی تھی لیکن کمپنی نے ہوٹل کے قیام کے بجائے 2 ٹاورز میں لگژری اپارٹمنٹس تعمیر کر کے انہیں فروخت کر دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے مارچ 2017 میں تعمیر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بی این پی کی لیز منسوخ کر دی تھی۔
2017 میں ہی ایف آئی اے نے بھی تحقیقات کیں مگر وہ کیس میں نامزد ملزمان پر الزامات ثابت نہیں کر سکی ۔ بعدازاں ایف آئی اے نے بسم اللہ نیاگرا پیراگون گروپ کو ساڑھے 13ایکڑ اراضی لیز پر دینے کے معاملے کی تحقیقات روک دیں ۔
مارچ 2018 میں نیب کی جانب سے گرینڈ حیات ہوٹل کی تعمیر اور لیز میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات کا آغاز کردیا تھا۔
جنوری 2019 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا۔