مصنوعی ذہانت آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت کے لیے بڑا خطرہ ہے، مرتضی سولنگی

بدھ 24 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نگراں وفاقی وزیراطلاعات مرتضی سولنگی نے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت اور غلط خبریں پھیلانے والے کارخانے آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت کے لیے بہت بڑا خطرہ بن کر سامنے آئے ہیں، نیوز رومز کو فیکٹ چیک ڈیپارٹمنس قائم کرنا ہوں گے، پبلک انٹرسٹ کا مطلب عوامی مفاد ہے نہ کہ عوامی دلچسپی ہے۔

لاہور میں انٹرنیشنل میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نگراں وزیراطلات مرتضی سولنگی نے کہا کہ سال 2024 میں دنیا کے کئی ممالک میں الیکشن ہورہے ہیں، 8 فروری کو پاکستان میں ہورہے ہیں، ایک ہفتے بعد انڈونیشیا میں ہورہے ہیں، کچھ ملکوں میں ہوچکے ہیں، کچھ ملکوں میں ہونے والے ہیں، امریکا میں نومبر میں  ہوں گے، اسی لیے 2024  انتخابستان ہی لگتا ہے۔

مرتضی سولنگی نے کہا کہ ڈیجیٹل فرنٹیئر اور ڈیجیٹل ارینا کے جو چیلینجز ہیں وہ بہت بڑے ہیں، جب انٹرنیٹ آیا اور اس کے بعد سوشل میڈیا سائٹس آئی تو بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اب میڈیا سیٹھوں اور طاقتور لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر عوام کے پاس جارہا ہے اور عوام مسلح ہوں گے۔

نگراں وزیراطلاعات نے کہا کہ جس طریقے سے پچھلے چند سالوں میں اس ٹیکنالوجی کا ارتقاء ہوا ہے، مصنوعی ذہانت اور غلط خبریں پھیلانے والے کارخانے آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت کے لیے بہت بڑا خطرہ بن کر سامنے آئے ہیں، ہم ماضی میں ہٹلر کے زمانے کے پراپیگنڈے کی باتیں تو کرتے تھے اور شاید اب بھی کررہے ہی، لیکن اس پروپیگنڈے نے اب نیا لیول حاصل کرلیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے ٹرولز فرمز ہوتی تھیں، اب ان کے لیے بھی انسانوں کی ضرورت نہیں ہے، جنریٹو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی وجہ سے اب بہت کم پیسے میں آپ ایک مصنوعی ٹیکسٹ، مصنوعی آواز، مصنوعی تصاویر اور مصنوعی ویڈیوز بنا سکتے ہیں، یہ ایک بہت بڑا ہتھیار بن کر سامنے آیا ہے۔

ان کا کہنا تھا پاکستان جیسے ملک جہاں شرح خواندگی اتنی زیادہ نہیں ہے لیکن 15 کروڑ کے قریب موبائل لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں، اگر کوئی صبح بتائے کہ گھوڑی نے گدھے کو جنم دیا ہے اور میرے فون پر مسیج آیا ہے تو لوگ اس پر اعتبار کرنے لگیں گے۔

مرتضی سولنگی نے کہا کہ آج کل وی لاگر ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے، بالکل بے بنیاد قسم کی ویڈیوز پر 24 گھنٹے میں لاکھوں ویوز ہوتے ہیں، اور اگر کوئی شریف آدمی وی لاگ کرے تو پتہ چلے کہ اس کے 500 یا 1000 ویوز ہیں۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ صحافت بنیادی طور پر عوام کے جاننے کے حق کا دفاع ہے، تمام چیزیں جو عوام کے مفاد میں ہیں، پبلک مفاد کا مطلب میں عوامی مفاد کرتا ہوں، عوامی دلچسپی نہیں کرتا، کیوں کہ دلچسپی بہت سی چیزوں میں ہوتی ہے، ابھی ایک نئی شادی ہوئی اور علیحدگی ہوئی، اس سے عوام کو دلچسپی تھی لیکن وہ عوامی مفاد کا معاملہ نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس بہت بڑا خطرہ ہے، اس سال پاکستان میں الیکشن کا سال ہے، اگر آپ کو پتہ چلے کہ ایک بہت بڑا لیڈر جس کی کلوننگ کی گئی ہو، آواز ملتی جلتی ہو، اس کی تصویر ہو اور وہ اعلان کرے کہ میں نے اپنی پارٹی کا انتخابی نشان تبدیل کردیا ہے، اب آپ فلاں کو ووٹ دو تو اور لوگ اس پر یقین کر لیں گے۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ صحافت کا بنیادی اصول گیٹ کیپر کا نظام ہے، نئے نظام نے گیٹ کیپر کو اٹھا کر باہر پھینک دیا ہے، فیکٹ چیکنگ، حقائق کی تصدیق کرنا اور ملٹی فلٹرز سے گزارنا یہ صحافت کی روح اور جینز اور ڈی این اے میں شامل تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے، اب آرٹیفیشل انٹیلیجنس، ڈیپ فیک، وائس کلوننگ اور سائبر مہمز کا زمانہ ہے تو سچ کو لوگوں تک لانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ معلومات کی ویری فکیشن لیبارٹریز بنائی جائیں، نیوز روم کو فیکٹ چیک ڈیپارٹمنٹس بنانے پڑیں گے، میڈیا کے اداروں کو تصدیق کا عمل بنانا ہوگا ورنہ کوئی بھی پروپیگنڈا کرنے والا لوگوں کو غلط لائن پر لا کر ملک کو تباہی کی طرف لے جاسکتا ہے، 2016 اور 2020 کے امریکی انتخابات کو دیکھ لیں، 2024 میں پاکستان میں الیکشن ہورہے ہیں، بھارت، انڈونیشیا، امریکا میں ہورہے ہیں، تو آج کے ڈیجیٹل دورمیں  صحافت کے لیے سنگین خطرات ہیں، میڈیا انڈسٹری کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp