جوتا عام طور پر پیروں میں پہننے کے کام آتا ہے تاہم اس کے علاوہ اور بھی ایسے کام ہیں کہ جو جوتوں سے لیے جاتے ہیں، گاؤں دیہات میں اگر کوئی شخص چوری کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اس کا منہ کالا کرکے اس کے گلے میں جوتے کا ہار پہنایا جاتا ہے اور پھر اسے گاؤں کی سیر کرائی جاتی ہے۔ اسی طرح شادی کے وقت بارات کے روز جب دولہا اپنی دلہن کے ساتھ آ کر بیٹھتا ہے تو ایک رسم کی جاتی ہے جس میں دلہن کی بہنیں دولہے کا جوتا چھپا لیتی ہیں اور پھر اس کی واپسی کے لیے رقم کا تقاضا کیا جاتا ہے جو 10 ہزار سے شروع ہو کر دو 3 لاکھ تک جاتا ہے۔
جوتے کو مرگی کا دورہ پڑنے کے دوران مریض کو سنگھایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس طرح مرگی کے مرض میں مبتلا شخص کو کچھ سکون میسر ہوتا ہے، اس کے علاوہ جوتے کو نظر اتارنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے نئی گاڑیوں کے پیچھے اکثر چھوٹے چھوٹے جوتے لٹکے ہوئے دیکھے جاتے ہیں، ان سب کے علاوہ بچپن میں ہر ماں اپنے بچوں کی تھوڑی سی تربیت جوتے سے بھی کرتی ہے۔
مزید پڑھیں
جوتے کو پاکستانی سیاست میں بھی کافی مقبولیت حاصل ہے، سابق وزرا اعظم، سابق صدر، وفاقی وزرا، وزیراعلیٰ، اور دیگر پر عوامی اجتماعات کے دوران جوتا پھینکنے کی کوشش کی گئی ہے، گزشتہ روز بھی مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز پر انتخابی ریلی کے دوران بھی جوتا اچھالا گیا۔
پاکستان میں سیاست دانوں میں سب سے پہلے جوتا سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم پر پھینکا گیا، 7 اپریل 2008 کو سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم حلف لینے سندھ اسمبلی پہنچے تو وہاں موجود پیپلز پارٹی کے کارکن مشتعل ہوگئے اور نعرے بازی کی، اس دوران ڈپلومیٹ گیلری سے ایک شخص نے ارباب رحیم کو گالی دیتے ہوئے جوتا مارا جو ان کو سینے پر جا کر لگا۔
حلف لینے کے بعد ارباب غلام رحیم کی نشست پر جا کر ان سے دستخط لیے گئے جس کے فوراً بعد وہ ایوان سے روانہ ہو گئے، مشتعل افراد اور خواتین نے باہر بھی ارباب غلام رحیم کا پیچھا کیا، اس دوران ایک کارکن نے ایک مرتبہ پھر ارباب غلام رحیم کو جوتا مارا جس کے بعد وہ تیزی سے گاڑی میں سوار ہوئے اور اسمبلی سے روانہ ہو گئے، اس واقعے کے بعد میڈیا پر یہ بحث کافی دن تک جاری رہی اور اس کے کارٹون بھی مختلف چینلز پر چلتے رہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف پر بھی جوتا پھینکا گیا جس کی تمام سیاسی رہنماؤں نے مذمت کی تھی۔ 11 مارچ 2018 کو گڑھی شاہو میں سابق وزیر اعظم نواز شریف جامعہ نعیمیہ میں منعقدہ تقریب میں شریک ہوئے، نواز شریف جب خطاب کے لیے ڈائس پر آئے تو قریب بیٹھے مدرسے کے فارغ التحصیل شخص نے ان کی جانب جوتا اچھالا جو ان کے سینے پر لگا، اس شخص کو وہاں موجود نواز شریف کے محافظوں نے پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد ازاں سیکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کردیا، واقعہ کے بعد نواز شریف نے مختصر خطاب کیا اور واپس روانہ ہوگئے۔
نواز شریف پر جوتا پھینکنے جانے کے اگلے 3 روز میں بانی پی ٹی آئی عمران خان پر 2 مرتبہ جوتا پھینکنے کی کوشش کی گئی تاہم وہ محفوظ رہے۔ 11 مارچ 2018 کو فیصل آباد میں پی ٹی آئی کی ممبر سازی مہم کے دوران ایک شہری کی جانب سے عمران خان کی گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی گئی اور جوتا پھینکا گیا، اس دوران پی ٹی آئی کارکنوں نے شہری کی خوب پٹائی کی۔
گجرات میں 13 مارچ 2018 کو تحریک انصاف کے جلسے کے دوران عمران خان سٹیج پر کھڑے خطاب کر ر ہے تھے کہ اچانک ان کی طرف جوتا اچھالا گیا جو ان کے ساتھ کھڑے پی ٹی آئی رہنما علیم خان کو لگا، اس دوران علیم خان مسکراتے رہے۔ پاکستانی سیاستدانوں پر جوتا پھینکنے کے واقعات پاکستان سے باہر بھی ہوتے رہتے ہیں، سابق صدر جنرل مشرف پر 7 فروری 2011 کو لندن میں اپنے چند کارکنوں کے ساتھ جلسے سے خطاب کر رہے تھے تو اچانک ایک آدمی کھڑا ہوا اور آہستگی سے جوتا جنرل مشرف کی طرف اچھال دیا تاہم جوتا اس سٹیج تک نہ پہنچ سکا۔ یہ جلسہ لندن کے علاقے والتھم سٹو میں منعقد ہوا جس میں 1500 کے قریب لوگ موجود تھے۔
اس سے قبل سابق صدر آصف علی زرداری اگست 2010 میں برطانیہ کے شہر برمنگھم میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے، اس دوران ایک شخص سردار شمیم نے آصف زرداری کی طرف جوتا پھینکنے کی کوشش کی تاہم وہ بچ گئے، بعد ازاں سیکیورٹی اہلکاروں نے اس شخص کو گرفتار کر لیا۔
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال 24 فروری 2018 کو اپنے حلقے نارووال میں ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے، اس دوران ایک شخص نے احسن اقبال کی طرف جوتا پھینکا تاہم جوتا احسن اقبال کو نہیں لگا اور ان کے برابر کھڑے شخص کو لگا، واقعے کے بعد احسن اقبال تقریر ادھوری چھوڑ کر چلے گئے، پولیس نے جوتا پھینکنے والے شخص کو حراست میں لے لیا تاہم احسن اقبال نے اس شخص کیخلاف قانونی کارروائی سے روک دیا جس کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا۔
بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان پر بھی جوتا پھینک دیا گیا تھا، 18 جون 2021 کو بجٹ اجلاس سے قبل جام کمال خان کے ایوان میں پہنچنے سے قبل اپوزیشن اراکین کی جانب سے اسمبلی کے احاطے میں بھرپور احتجاج جاری تھا، جام کمال خان سیکیورٹی حصار میں اسمبلی کے احاطے پہنچے اس دوران ایک جانب سے یکے بعد دیگرے 2 جوتے ان کی طرف پھینکے گئے۔
سابق وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی گاڑی پر بھی جوتا پھینکا گیا تھا، 10 جنوری 2023 کو پنجاب اسمبلی اجلاس سے روانگی کے وقت رانا ثنا اللہ کی گاڑی پر نامعلوم شخص نے جوتا پھینکا جو گاڑی کی ونڈ اسکرین پر لگا تھا، جس کے بعد گاڑی ایک لمحے کے لیے رکی اور پھر وہاں سے روانہ ہوگئی، کہا جاتا ہے کہ یہ جوتا مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے رکن پنجاب اسمبلی شیخ راشد حفیظ کے ڈرائیور نے رانا ثنا اللہ کی گاڑی کی طرف پھینکا تھا۔