سپریم کورٹ میں اعلی عدلیہ کے سابق ججز کے خلاف کاروائی نہ کرنے کے فیصلے کیخلاف اپیل کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی۔
اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت انٹرا کورٹ اپیل دائر کی ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ اپیل وزارت قانون کی جانب سے دائر کی گئی ہے، کیا اس کی باقاعدہ اجازت لی گئی ہے، اٹارنی جنرل بولے؛ سیکریٹری قانون کا بیان حلفی لگایا گیا ہے، اس کیس کے فیصلے کے وقت وفاقی حکومت کو 27 اے کا نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔
جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا فیصلے میں آئینی تشریح کی گئی تھی، جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل کو 27 اے کو نوٹس کرنا لازمی تھا، جسٹس امین الدین خان بولے؛ اگر آپ فریق نہیں تھے تو پہلے فریق بننے کی اجازت لینا ہوگی، اگر اپ فریق تھے تو پھر آپ 27 اے کا نوٹس کا ایشو اپیل میں اٹھا سکتے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے دریافت کیا کہ وفاقی حکومت اس فیصلے سے کیسے متاثر ہو رہی ہے، جبکہ جسٹس امین الدین خان نے دریافت کیا کہ کیا حکومت کا مسئلہ پینشن کی ادائیگی ہے، جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ پینشن کی ادائیگی تو چھوٹا مسئلہ ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے دریافت کیا کہ اگر فیصلہ نہ ہوتا تو پھر وفاقی حکومت کا موقف کیا ہوتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین واضح ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل جج کیخلاف کارروائی کرسکتی ہے، اگر شکایت درست نکلے تو جج کو عہدے سے برطرف کیا جاتا ہے، ریٹایرڈ یا مستعفی جج کو عہدے سے کیسے ہٹایا جا سکتا ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی بولے؛ جو شخص جج ہی نہیں رہا اس کےخلاف جوڈیشل کونسل کارروائی بے سود ہوگی۔
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ فریقین کو جاری نوٹس اپیل کے قابل سماعت ہونے سے مشروط ہوں گے، سپریم کورٹ میں اعلی عدلیہ کے سابق ججز کیخلاف کارروائی نہ کرنے کے فیصلے کیخلاف اپیل پر سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔