آسٹریلوی ماہر تعلیم ڈاکٹر یانگ ہینگ جون کو ایک چینی عدالت نے جاسوسی کے الزام میں 5 سال حراست میں رکھنے کے بعد موت کی سزا سنائی ہے۔
ایک نامعلوم غیر ملکی ملک کے لیے جاسوسی کے الزام پر ڈاکٹر یانگ کو 2019 میں گوانگزو ہوائی اڈے سے گرفتار کیا گیا تھا، 57 سالہ جمہوریت نواز بلاگر چینی نژاد آسٹریلوی شہری ہیں، جن پر مئی 2021 میں بیجنگ میں منعقدہ بند کمرے کی ایک روزہ سماعت میں مقدمہ چلایا گیا، جس کا فیصلہ عوامی طور پر ظاہر نہیں کیا گیا۔
ڈاکٹر یانگ کے خاندان کو عدالت کے فیصلے سے صدمہ پہنچا ہے، ایک ترجمان نے اسے ’بدترین توقعات کے انتہائی انجام‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔
Breaking: Australian father and pro-democracy writer Yang Hengjun sentenced to death with a two year reprieve by a Chinese court https://t.co/Xs1CPASED7
— Eryk Bagshaw (@ErykBagshaw) February 5, 2024
ہیومن رائٹس واچ کی آسٹریلیائی ڈائریکٹر ڈینیئلا گیوشون نے کہا کہ یانگ کی سزا ’تباہ کن‘ تھی، من مانی حراست کے متعدد برسوں بعد، تشدد کے الزامات، اپنی پسند کے وکلاء تک رسائی کے بغیر ایک بند اور غیر منصفانہ ٹرائل – یہ سزا اتنی ہی سنگین ہے جتنی کہ یہ تشویشناک ہے۔
تنظیم نے کینبرا سے مطالبہ کیا کہ وہ چین میں من مانی طور پر حراست میں لیے گئے دیگر لوگوں کی حکومتوں کے ساتھ ایک ’اتحاد‘ تشکیل دے، قانون کی حکمرانی کی تعمیل کرنے اور غلط طریقے سے حراست میں لیے گئے افراد کی رہائی کے لیے لابنگ کرے۔
پیر کو سامنے آنے والی سزا کو باضابطہ طور پر 2 سال کی مہلت کے ساتھ موت کی سزا کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہ ایک نسبتاً عام حکم ہے جو موت کی سزا کو 25 سال تک یا 2 سال کے اچھے سلوک کے بعد عمر قید کی اجازت دیتا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ چین سزائے موت کا دنیا کا سب سے بڑا صارف ہے، لیکن عوامی طور پر کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ چین کا عدالتی نظام بدنام زمانہ طور پر مبہم ہے، سزا سنانے کی شرح 99.9 فیصد سے زائد ہے اور بہت کم مقدمات کو غلط سزاؤں پر الٹ دیا گیا ہے۔
آسٹریلوی وزیر خارجہ پینی وونگ نے پیر کو کہا ہے کہ چینی عدالت کا یہ فیصلہ چونکادینے والا ہے، چینی سفیر ژاؤ کیان کو طلب کرکے حکومت نے اپنا اعتراض سخت ترین الفاظ میں درج کرایا ہے۔
وونگ نے کہا کہ آسٹریلوی حکومت نے ہر موقع اور اعلیٰ ترین سطح پر ڈاکٹر یانگ کی وکالت کی ہے۔’آسٹریلیا ڈاکٹر یانگ کے مفادات اور فلاح و بہبود کے لیے انصاف کے لیے ہماری وکالت سے باز نہیں آئے گا، تمام آسٹریلوی ڈاکٹر یانگ کو اپنے خاندان کے ساتھ دوبارہ ملتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
آسٹریلیا میں یانگ کے پی ایچ ڈی سپروائزر اور اس کے کیس کے وکیل ایسوسی ایٹ پروفیسر چونگی فینگ نے کہا کہ یانگ کی سزا عمر قید میں تبدیل ہو جائے گی۔ انہوں نے اپنے سابق طالب علم کی سزا کو ایک ’اشتعال انگیز سیاسی ظلم و ستم‘ قرار دیا ہے۔
“ڈاکٹر یانگ نے جاسوسی کا کوئی جرم نہیں کیا، اسے چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید اور انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی جیسی عالمی اقدار کی وکالت کرنے پر چینی حکومت کی طرف سے سزا دی جا رہی ہے۔‘
آسٹریلوی وزیر خارجہ پینی وونگ نے میڈیا کو بتایا کہ ابھی بھی اپیل کی راہیں موجود ہیں، تاہم پروفیسر چونگی فینگ کے مطابق 5 سال کی من مانی حراست اور تشدد نے ڈاکٹر یانگ کی صحت کو بہت نقصان پہنچا، یہی وجہ ہے کہ وہ ان دنوں شدید بیمار ہے۔
پروفیسر چونگی فینگ نے آسٹریلیا پر زور دیا کہ وہ یانگ کی فوری طور پر آسٹریلیا واپسی کے لیے دباؤ ڈالے، ممکنہ طور پر طبی پیرول پر، تاکہ وہ علاج تک رسائی حاصل کر سکیں، چین میں ڈاکٹر یانگ کی حراست چینی اور آسٹریلوی حکومتوں کے درمیان تنازع کا ایک اہم نکتہ رہا ہے۔
پچھلے سال ایک اور آسٹریلوی صحافی چینگ لی کو بھی قومی سلامتی کے الزامات میں 3 سال جیل میں رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا تھا، ان کی رہائی بڑے پیمانے پر آسٹریلیائی لابنگ کا نتیجہ سمجھی جاتی تھی، جس کے دوران دونوں حکومتوں کی طرف سے تعلقات کو ٹھیک کرنے اور دو طرفہ تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوششیں کی جاتی رہی تھیں۔
مقدمات سے واقف ذرائع کے مطابق یانگ کی رہائی کو محفوظ بنانے کی کوششیں زیادہ پیچیدہ ثابت ہو رہی تھیں، عدالتی فیصلے کی مذمت کے باوجود، وزیر خارجہ پینی وونگ ںے اس فیصلے کو’چین کے قانونی نظام کے اندر‘ قرار دیا ہے، انہوں نے یہ کہتے ہوئے، آسٹریلیا اور چین کے تعلقات پر اس کے ممکنہ وسیع اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی۔
’میں نے کہا ہے کہ استحکام کا مطلب ہے کہ جہاں ہمارے لیے ممکن ہو سکے تعاون کریں، جہاں ضروری ہو وہاں اختلاف کریں، اور ہم اسی قومی مفاد میں مشغول ہوں، ظاہر ہے کہ یہ اختلاف کا موقع ہے، آسٹریلیا بہرحال ڈاکٹر یانگ کے مفادات کے پیش نظر ان کے لیے آواز بلند کرتا رہے گا۔‘
نومبر میں، یانگ کے بیٹوں نے آسٹریلوی وزیر اعظم کے دورہ چین سے قبل، انتھونی البانیز کو خط لکھ کر ان سے اپنے والد کی رہائی کے لیے بات چیت کرنے کی التجا کی تھی۔ ’ہم درخواست کرتے ہیں کہ آپ ہمارے والد کی جان بچانے اور ان کی آسٹریلیا واپسی کے لیے اپنی پوری طاقت سے کام کریں، ہم جانتے ہیں کہ ہمارے والد نے کچھ غلط نہیں کیا ہے۔‘
’انہوں نے ڈاکٹر یانگ کو 300 سے زیادہ پوچھ گچھ کا نشانہ بنایا ہے، 18 ماہ سے زیادہ، جس میں 6 ماہ کا شدید تشدد بھی شامل ہے، انہوں نے انہیں نیند سے محروم کر دیا، ان کی کلائیوں اور ٹخنوں پر پٹے باندھے اور کئی دنوں تک کرسی پر باندھ دیا، یہاں تک کہ وہ چل نہیں سکتا تھا۔‘
’۔۔۔لیکن ابھی تک کوئی اعتراف نہیں کیا گیا ہے … وہ جیل میں ہے کیونکہ وہ سچائی، جمہوریت، عقلی خیالات کے احترام کے ساتھ تبادلہ خیال کرتا ہے۔‘
آسٹریلیا کے شیڈو وزیر خارجہ سائمن برمنگھم نے کہا کہ یہ سزا ان خطرات کی یاد دہانی ہے جو کاروبار کرنے یا چین کے ساتھ مشغول ہونے میں لاحق ہوتے ہیں اور حکومت کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ یانگ کی رہائی کو محفوظ بنانے کے لیے بیجنگ پر ’زیادہ سے زیادہ مناسب دباؤ‘ برقرار رکھے۔