پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد امیدوارن بڑی تعداد میں منتخب ہو کر قومی اسمبلی پہنچنے کے قریب ہیں اور اس وقت تک 70 سے زیادہ آزاد امیدواروں کی جیت کنفرم ہو چکی ہے لیکن یہ امیدوار کس طریقے سے پارلیمنٹ میں بطور ایک پارلیمانی جماعت رجسٹرڈ ہوسکیں گے اور کیا مخصوص نشستیں حاصل کر پائیں گے؟ یہ سوال اس وقت قومی اسمبلی نتائج کے تناظر میں بہت اہم ہو چکا ہے۔
پی ٹی آئی غور و خوض کر رہی ہے، حامد خان
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اور پی ٹی آئی کے رہنما حامد خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پارٹی اس حوالے سے غور و خوض کر رہی اور جلد کوئی لائحہ عمل طے کر لیا جائے گا۔
حامد خان نے کہا کہ سارے ظلم اور جبر کے باوجود لوگوں کی طرف سے بہت اچھا ریسپانس آیا ہے جبکہ ہمیں ایک دن بھی کمپین نہیں کرنے نہیں دی گئی لیکن لوگوں نے پی ٹی آئی کے خلاف روا زیادتیوں کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔
جب حامد خان نے پوچھا گیا کہ آیا پی ٹی آئی بطور پارلیمانی جماعت رجسٹرڈ ہونے کے لیے الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست دے گی تو انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اس وقت ہر غلط کام کر رہا ہے اور نتائج کو تبدیل کیا جا رہا ہے جیسا کہ یاسمین راشد جیت چکی تھی ان کو ہرایا گیا، شعیب شاہین ایڈووکیٹ جیت چکے تھے ان کو ہرایا گیا، اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ فارم 45 تو ہمیں مل گئے ہیں لیکن فارم 47 جن پر حتمی نتیجہ درج ہوتا ہے وہ نہیں مل پا رہے۔
پاکستان تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے ساتھ ایک رجسٹرڈ جماعت ہے اور اس کو پورا حق ہے کہ وہ ایک پارلیمانی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ ہو اور دوسرا تمام جیتنے والے آزاد امیدواروں کو پارٹی ٹکٹس دئے گئے تھے اور اس کا باقاعدہ اعلان بھی کیا گیا تھا تو ہمیں بطور پارلیمانی جماعت رجسٹرڈ ہونے کا پورا حق ہے لیکن اس سلسلے میں ابھی لائحہ عمل طے نہیں کیا۔
’انتخابی نتائج میں دھاندلی سے نمٹ کر پارلیمانی جماعت کا سوچیں گے‘
اسلام آباد سے پاکستان تحریک انصاف کے آزاد امیدوار شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے اپنے انتخابی نتائج میں مبینہ دھاندلی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی بات نہیں، یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ابھی انتخابی نتائج کو دیکھ رہی ہے اس کے بعد بطور پارلیمانی پارٹی رجسٹرڈ ہونے کے لیے طریقہ کار طے کیا جائے گا۔
پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدوار کسی اور جماعت میں جا سکتے ہیں، حسن رضا پاشا
پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سابق چیئرمین حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آزاد حیثیت میں منتخب اراکین کو 72 گھنٹوں کے دوران کسی جماعت کا حصہ بننا ہوتا ہے جس میں سے 24 گھنٹے گزر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ایک دو جماعتیں رکھی ہوئی ہیں جن کو وہ جوائن کر سکتے ہیں لیکن اتنے کم وقت میں پی ٹی آئی کا بطور پارلیمانی جماعت رجسٹرڈ ہونا مشکل نظر آتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی جب اس طرح کی مشکل کا شکار ہوئی تو اس نے حفظ ماتقدم کے طور پر پاکستان پیپلز پارٹی-پارلیمنٹیرینز رجسٹرڈ کروا لی تھی جو کہ پاکستان تحریک انصاف نے نہیں کیا۔ ویسے سارے آزاد اراکین پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ نہیں کچھ دیگر بھی ہیں لیکن قانونی طور پر بطور آزاد اراکین بھی وہ اپنا امیدوار لے کر آ سکتے ہیں۔
پارلیمانی جماعت بننے کے لیے انتخابی نشان واپس لینا پڑے گا، اکبر ایس بابر
پاکستان تحریک انصاف کے بانی رہنما اکبر ایس بابر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اس وقت تک پارلیمانی جماعت نہیں بن سکتی جب تک اسے انتخابی نشان واپس نہیں مل جاتا جو کہ صاف شفاف انٹرا پارٹی الیکشن سے مشروط ہے۔
انٹرا پارٹی الیکشن کے بعد سرٹیفکیٹ جمع کرایا جائے گا اور پھر پی ٹی آئی بطور ایک پارلیمانی جماعت رجسٹرڈ ہو سکتی ہے لیکن انٹرا پارٹی الیکشن 3 دنوں میں ممکن نہیں۔
اکبر ایس شہزاد نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پی ٹی آئی چیئرمین گوہر خان کو خود ساختہ چیئرمین لکھا ہے اور اس وجہ سے جب انہوں نے 5 فروری کو انٹرا پارٹی انتخابات کا اعلان کیا تو میں نے ان سے کہا کہ اس وقت موجودہ پارٹی قیادت کی چونکہ کوئی قانونی حیثیت نہیں اس لیے آپ یہ نہ کرائیں ورنہ پارٹی ڈی لسٹ یا کالعدم بھی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے ان سے کہا تھا کہ مل بیٹھ کر کوئی راستہ نکالتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف اس وقت ایک قانونی خلا میں ہے اور وہ نشستوں پر کامیابی کے باوجود کسی صوبے میں حکومت نہیں بنا سکتی۔