اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے اپنی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا دیا، انہوں نے موقف اپنایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کسی جج کے خلاف کارروائی میں مس کنڈکٹ سے متعلق سارے ریکارڈ کا جائزہ لینے کی پابند ہے۔
سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی نے جواب میں موقف اپنایا کہ اعلٰی عدلیہ کے ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کرتی ہے جس میں انکوائری کا پورا طریقہ کار موجود ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی جس انداز میں کی گئی وہ نہ صرف درخواست گزار کے بنیادی حقوق بلکہ شفاف ٹرائل کے حق کی بھی خلاف ورزی ہے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے لکھا کہ برطرفی سے قبل سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں نہ شہادتیں ریکارڈ کی گئی ہیں اور نہ جرح ہوئی ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کسی جج کے خلاف کارروائی میں مس کنڈکٹ سے متعلق سارے ریکارڈ کا جائزہ لینے کی پابند ہیں۔
سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے مطابق ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں کی گئی تقریر کے حوالے سے نہ باقاعدہ فرد جرم عائد ہوئی، نہ گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوئے جو کہ آرٹیکل 209 میں دیے گئے طریقہ کار کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کا کسی جج کے خلاف کارروائی کرنا آئین کے آرٹیکل 195 کی خلاف ورزی ہے۔
واضح رہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف ان کی اپیل پر فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ان کی برطرفی کے خلاف اپیل پر وہ سپریم کورٹ کی پراسیڈنگ سے مطمئن ہیں، سپریم کورٹ نے ان کے کیس کے بنیادی پہلوؤں پر فوکس کیا ہے، امید ہے کہ انصاف پر مبنی اصولوں پر فیصلہ ہوگا۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا معاملہ انکوائری کی طرف جائے گا؟ سوال کے جواب میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ جب اس معاملے پر مجھے شوکاز نوٹس بھی نہیں ملا تھا تو میں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو خط لکھا تھا کہ میں نے یہ باتیں کی ہیں، جس پر ان کا ردعمل بھی آیا تھا۔
شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ میں نے سابق چیف جسٹس سے درخواست کی کہ کمیشن بنا کر میرے الزامات پر تحقیقات کروائی جائیں، میں نے شرط یہ رکھی تھی کہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس یا ریٹائر جج جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھایا ہو وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں۔