انڈونیشیا کے وزیر دفاع اور متنازعہ سابق فوجی جنرل پرابوو سوبیانتو ملک کے نئے صدر منتخب ہوتے نظر آرہے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق، صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے ابتدائی غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق کاسٹ کیے گئے ووٹوں میں سے نصف پرابوو سوبیانتو نے حاصل کیے ہیں۔
ابتدائی پولنگ نتائج کے مطابق، سابق جنرل سوبیانتو نے 57 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں جس کے بعد انہیں انتخابات کے دوسرے مرحلے میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
پرابوو نے اپنی کامیابی کو تمام انڈونیشین شہریوں کی جیت قرار دیا ہے تاہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں انتخابات کے مکمل نتائج کا اعلان آئندہ چند ہفتوں تک بھی متوقع نہیں ہے۔
مزید پڑھیں
72 سالہ پرابوو سوبیانتو کی مقبولیت نے ملک میں کئی خدشات کو جنم دیا ہے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ملک میں دوبارہ آمریت کا راج ہوگا۔ پرابوو سوبیانتو ڈکٹیٹر جنرل سوہارتو کے داماد تھے اور ان کے دور حکومت میں وہ اسپیشل فورسز کے کمانڈر بھی تھے۔ سوبیانتو کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے متعدد الزامات کا سامنا بھی ہے۔
تاہم گزشتہ روز پولنگ ختم ہونے کے بعد دارالحکومت جکارتہ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے ان کو خوش آمدید کہا اور ان کے حق میں نعرے لگائے۔
اس موقع پر پرابوو سوبیانتو کہا کہنا تھا کہ وہ سابق صدور اور موجودہ صدر جوکو وڈوڈو کی پالیسیوں کو جاری رکھیں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ 2 صدارتی انتخابات میں پرابوو سوبیانتو صدر وڈوڈو کے خلاف الیکشن لڑے تاہم انہیں ان انتخابات میں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔
پرابوو کو غیر قانونی طور پر لوگوں کو لاپتہ کرنے کے الزام میں 2014 میں فوج سے نکال دیا گیا تھا تاہم انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے ذریعے اپنے اوپر لگے الزامات کی تردید کی ہے۔ 2014 میں انہوں نے عرب ٹی وی ’الجزیرہ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے لوگوں کو اغوا کرنے کے احکامات دیے تھے مگر انہوں نے ایسا اعلیٰ قیادت کے احکامات پر کیا تھا۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران ایسی ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں جن میں نوجوان افراد کو پربوو کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اور یہ کہتے دکھایا گیا ہے کہ انہیں مخالفین کی جانب سے انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ دوسری جانب، ایسے انڈونیشیائی ووٹرز بھی ہیں جنہیں پربوو کے ممکنہ طور پر ملک کا صدر بننے پر تشویش لاحق ہے۔