نہ کبھی تحریک انصاف والوں نے سوچا تھا کہ وہ مولانا کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر اٹھکیلیاں کریں گے، نہ کبھی مسلم لیگ ن نے سوچا تھا کہ وہ آصف زرداری کو صدر بنانے کی سر توڑ کوشش کریں گے، نہ کبھی جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمٰن کے گمان میں ہوگا کہ وہ پی ٹی آئی کے حق میں اپنی نشست سے دستبردار ہوں گے نہ پیپلز پارٹی نے خواب میں بھی کبھی وزارتوں سے انکار کیا ہوگا، نہ جی ڈی اے نے اس سے پہلے کبھی دھاندلی کے خلاف ایسا ’بروقت‘ احتجاج کیا ہو گا؟ نہ بلوچستان میں کسی نے یہ سوچا ہو گا کہ وہ احتجاج کریں اور ان کا احتجاج میڈیا کی زینت بھی بنے۔ نہ ایم کیو ایم لندن کی ’ہیلو‘ کے منتظر لوگوں نے کراچی میں بیلٹ بکسوں کو بھرا نہ ایم کیو ایم نے خواب میں اتنی نشستیں دیکھیں، نہ ن لیگ نے نواز شریف کے وزیراعظم نہ بننے پر عوامی رد عمل کا پہلے تصور کیا۔
ان انتخابات سے کسی کے بھی مطلوبہ مقاصد پورے نہیں ہوسکے۔ جس نے جو سوچا نتیجہ اس سے الٹ ہی ہوا۔ جس نے جو چاہا حاصل گفتگو مختلف ہی رہا۔ ان انتخابات کے بارے میں یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ’تارے زمین پر‘ البتہ ان کے نتائج کو اس طرح ضرور موسوم کیا جا سکتا ہے کہ ’سارے زمین پر‘۔
ایسے انتخابات چشم فلک نے شاید پہلے کبھی اس سرزمین پر نہ دیکھے ہوں۔ اس سے پہلے تو جس، جس نے نعرہ لگایا کہ ’ساڈی گل ہو گئی اے‘ تو پھر اس کا مطلب یہی سمجھا گیا کہ ’گل ہو گئی اے‘ اور پھر یہ بات پتھر پر لکیر رہی۔ پہلے تو یہی ہوا کہ جس طرف اسٹیبلشمنٹ نے ہلکا سا اشارا بھی کیا، قوم نے اسی جانب رخ کیا۔ بکسے میں ووٹ بھی اسی کے نکلے۔ اس کارروائی کو جنرل ضیا الحق خاموش اکثریت کا نام دیتے تھے۔ سیاسی جماعتیں جھرلو کے نام سے پکارتی تھیں۔ لیکن اس دفعہ معاملہ عجیب ہوا۔ جھرلو پھیرنے والوں کی امیدوں، آرزوؤں پر جھرلو پھر گیا۔ ’ساڈی گل ہو گئی اے‘ کا متصادم بیانیہ پہلی دفعہ تخلیق ہوا۔
اگر اس بیانیے کا سہرا آپ عمران خان کے سر رکھنا چاہتے ہیں تو مجھے آپ کی سادگی پر کوئی اعتراض نہیں لیکن باتیں اتنی سادہ نہیں ہوتیں۔ تہہ دار گفتگو میں کئی پرتیں ہوتی ہیں۔ سیاست میں کئی رمزیں ہوتی ہیں۔ اپنے ہاں بیانیے پیدا نہیں ہوتے، تخلیق کیے جاتے ہیں۔ اس ملک میں لیڈر جنم نہیں لیتے، ان کی لیبارٹری میں پیدائش کروائی جاتی ہے۔ جس طرح حادثہ اچانک نہیں ہوتا اس طرح لیڈر بھی ایسے نہیں بنتا۔ بہت سے مقامات پر ماتھا ٹیکنا ہوتا ہے۔
بات علامت میں کھو رہی ہے۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ وہ جو کہتے تھے کہ ہر جمہوری بحران کا حل انتخابات میں سے نکلتا ہے، ان کی خواہش شاید پوری نہ ہو۔ جس طرح کے نتائج نکالے گئے ہیں وہ بے مقصد نہیں۔ جس طرح کی فیک نیوز چلوائی جا رہی ہیں وہ بے وجہ نہیں ہیں۔ اس سب کا سبب ملک میں بد امنی، انتشار، عدم استحکام پیدا کرنا ہے اور اس کے لیے ایک ایسی جماعت کا انتخاب کیا گیا ہے جو پہلے بھی ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دے چکی ہے۔
کبھی دوہزار چودہ کے دھرنے کے شہسوار بن کر، کبھی لانگ مارچ کے دلدار بن کر، کبھی جلاؤ گھیراؤ کےذمہ دار بن کر، کبھی سانحہ نو مئی کے تخلیق کار بن کر۔ تحریک انصاف کو صرف یہی کام آتا ہے۔ حتی کہ جب ان کو حکومت سونپ دی گئی تب بھی وہ یہی کام کرتے رہے۔ وزیراعظم اپوزیشن کر رہے تھے۔ ان کے وزیر اطلاعات صحافیوں کو تھپڑ مار رہے تھے۔ ان کے باقی وزراء دوسری جماعتوں کو گالیاں دے رہے تھے۔ اب سوچیے اس جماعت کے پیروکاروں کو ایک سو اسی نشستوں کی چوسنی دے دی گئی ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ اس ملک کا کیا حال کریں گے۔
ایک طرف تحریک انصاف کا آزمودہ طرز عمل ہے دوسری جانب مسلم لیگ ن ہے جو اپنے حقوق کا دفاع نہیں کر پارہی تو اپنے ووٹرز کے حقوق کا دفاع کیسے کرے گی۔ ن لیگ اس وقت ایک ایسی خود ترسی کی کیفیت میں ہے کہ اسے اس بات کی سمجھ ہی نہیں آ رہی ہے کہ فیک نیوز کا کاروبار، خیبر پختونخوا میں شکست اور میڈیا کی چیرہ دستیاں ان سب کا صرف ایک مقصد تھا کہ ن لیگ کی متوقع فتح کو شکست میں بدل دیا جائے۔ ن لیگ بڑی سہولت سے ’ساڈی گل ہوگئی اے‘ کے جال میں پھنس گئی۔ نہ جماعت نے انتخابی مہم میں جان ڈالی نہ ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کا پابند کیا۔ اس صورت حال کا اثر ووٹرز پر پڑا۔ وہ بھی ستو پی کر گھر بیٹھا رہا کیونکہ اس نے بھی سمجھا کہ ’ساڈی گل ہو گئی اے‘۔
ایک زمانے میں ن لیگ کو ایسی جماعت سمجھا جاتا تھا جو انتخاب لڑنے میں مہارت رکھتی تھی۔ ووٹر کو گھر سے کیسے نکالنا ہے؟ سواری کا انتظام کیسے کرنا ہے؟ گھر گھر کمپئین کیسے کرنی ہے؟ بریانی کیسے پہنچانی ہے؟ ووٹ کیسے ڈلوانے ہیں؟ اس سائنس کو ن لیگ سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا مگر اسی سائنس میں یہ جماعت لسی پی کر فیل ہو گئی۔ نظریاتی طور پر کوئی بیانہ تخلیق نہیں ہو سکا۔ بودا منشور اور پھسپسا بیانیہ۔
بات یہ ہے جب موٹر وے بنی اس وقت آج کا نوجوان ووٹر پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ لیپ ٹاپ سکیم اب پرانی ہو چکی ہے۔ ایک کروڑ نوکریوں کا نعرہ عمران خان پانچ سال پہلے لگا چکا، پانچ ججوں کی کہانی عوام کئی مرتبہ سن چکے ہیں۔ اب لوگوں کو کچھ اور مصالحہ درکار تھا جو ساری کمپئین میں مفقود تھا۔
یاد رکھیں! خود غرضی فرد میں ہو یا جماعت میں زیادہ دیر پسندیدہ صفت نہیں رہ سکتی۔ اس کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلتا۔ اب حالات یہ ہیں کہ ن لیگ حالیہ انتخابات میں اپنی فتح کا دفاع نہیں کر پا رہی یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس دفعہ ان کے ہاتھ میں کسی اور کی دستار بھی تھی۔