محققین نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ڈائنوسار کی ایک نسل براعظموں کے درمیان سینکڑوں میل دور تک سمندر میں تیر کر سفر طے کرتی تھی کیوں کہ مراکش میں ایک مقام سے بطخ نما ڈائنوسارز منقریا باٹا کے فوسلز دریافت ہوئے ہیں، جن کے بعد ڈائنو سار کے طرز عمل کے بارے میں تصورات کو تبدیل کر دیا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ دریافت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جاندار ایک براعظم سے دوسرے براعظم کے درمیان سینکڑوں میل کا سفر تیر کر طے کرتے تھے، جو طویل عرصے سے پائے جانے والے اس تصور کے مکمل برعکس ہے کہ ڈائنوسارز بنیادی طور پر زمین پر پایا جانے والا ایک جاندار تھا۔
سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں تجویز کیا گیا ہے کہ جب افریقہ 66 ملین سال پہلے پانی سے گھرا ہوا ایک الگ تھلگ جزیرہ تھا تو ڈائنو سار کی اس نسل نے وسیع تر فاصلہ پانی میں تیر کر مکمل کیا۔ اس سے پہلے، ڈائنوسارکے لیے اس طرح کے وسیع پیمانے پر تیرنا ناقابل تصور مانا جاتا تھا ۔
بطخ نما ڈائنو سار کی اس نئی نسل کی لمبائی 3 سے 4 میٹر اور وزن تقریباً 250 کلوگرام بتایا جاتا ہے۔ شمالی افریقہ میں ان بطخ نما ڈائنو سار کی 3 اقسام کی نشاندہی کی گئی ہے جو بالکل اسی طرح کی نسل یورپ میں بھی پائی جاتی ہے۔
روایتی طور پر بطخ نما ڈائنو سار کے کی یہ نسل شمالی امریکا میں کریٹیشیئس دور کے آخر میں منظر عام پر آئے تھے۔ بعد میں ایسے ہی ڈھانچے یورپ اور ایشیا میں بھی پائے گئے تھے ، چوں کہ افریقہ پہلے سمندر میں گرا ہوا ایک جزیرہ تھا جس کا باقی دُنیا کے ساتھ کوئی زمینی راستہ موجود نہیں تھا۔
یونیورسٹی آف باتھ کے ڈاکٹر نکولس لونگریچ کا کہنا ہے کہ بطخ نما ان ڈائنو سار کے ڈھانچے اس بات کا ثبوت پیش کرنے کے لیے کافی ہیں کہ یہ یورپپن علاقوں سے سمندر کے ذریعے تیر کر افریقہ تک پہنچے ہیں۔
اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ نئی دریافت ہونے والی انواع منقریا باٹا ڈائنو سار یورپی بطخ نما ڈائنو سار کے ساتھ مکمل جسمانی مماثلت رکھتے ہیں، جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ ڈائنو سار تیرنے میں بھی ماہر تھے۔
ڈاکٹر لونگریچ کا کہنا ہے کہ یہ ڈائنوسار جدید پرندوں کی طرح سماجی جانور ہو سکتے ہیں جو مراکش کے ساحلوں پر جاندار ریوڑ بناتے ہیں۔ یہ دریافت روایتی حکمت کی نفی کرتی ہے اور تقریبا 100 ملین سال پر محیط کریٹیشیئس دور کے دوران ڈائنوسارز کی متحرک اور قابل قبول فطرت کو ظاہر کرتی ہے۔