پی ٹی آئی کے روپوش رہنما مراد سعید نے کہا ہے کہ دہشت گردی کی واپسی پر میرے مؤقف اور 9 مئی کے بہانے تو بعد میں ہاتھ آئے کہ جن کے ذریعے مجھے انتخابات سے مائنس کرنے کا جواز ڈھونڈا گیا۔ لیکن ’ڈی چوک پر پھانسی‘ کی دھمکی تو باجوہ صاحب نے مجھے مارچ 2022 میں ہی پہنچا دی تھی اور یہ ضروری بھی تھا، میرا نشانِ عبرت بننا ضروری تھا۔
پی ٹی آئی رہنما نے اپنی ایکس پوسٹ پر مزید لکھا کہ مجھے نشانِ عبرت بنانا ضروری تھا مگر مِس کیلکولیشن ہوگئی۔ ہم سمجھاتے رہ گئے مگر اپنے گھمنڈ میں سمجھ نہیں پائے۔ وہ بات جو عمران خان جانتا تھا، جو یہ سمجھ نہیں پائے کہ میں تبدیلی کا پوسٹر بوائے ضرور تھا فقط میں ہی تبدیلی نہیں تھا۔
مراد سعید نے لکھا کہ 2013 کے انتخابات کے وقت جب ٹکٹس کے فیصلے ہورہے تھے تو اُس وقت کے پارٹی کے کرتا دھرتاؤں نے میرے ٹکٹ کی بھرپور مخالفت کی۔ کہا گیا کہ نوجوان ہے، سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں ہے، نا اپنا کوئی ووٹ ہے نا خاندان کا۔ صرف ایک شخص تھا جس کو یقین تھا کہ پاکستان بدل چکا ہے اور اِس تبدیلی کا ’پوسٹر بوائے‘ بننا میرے حصے میں لکھا گیا۔ کافی بڑے گھروں میں خطرے کی گھنٹیاں بجیں، ان کی نسلوں کے مستقبل کا سوال تھا۔ الزامات کی بوچھاڑ، جعلی ڈگری سے لیکر غلیظ ذاتی حملے بھی کیے گئے۔
مزید پڑھیں
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگلی حکومت میں عمران خان نے پھر اسی ذی شعور اعلیٰ قیادت کے مخالف جا کر سب سے بڑے بجٹ والی وزارت سونپ دی۔ بڑی بڑی کرسیوں پر لوگ تلملائے، اللہ کا کرم تھا اُس نے مجھے عمران خان کا اعتماد قائم رکھنے کی توفیق دی۔ عمران خان نے ہزاروں کی پود اپنے ہاتھوں لگائی تھی اور اُن ہزاروں کے بعد لاکھوں تیار ہیں۔ میں نہیں لڑا لیکن یونین کونسل کا ایک ورکر اِن خدائی کے دعویداروں کے حمایت یافتہ امیدوار سے تاریخی لیڈ لے گیا۔
مراد سعید نے مزید کہا کہ جن خاندانوں کو اتنے سال گھاگ سیاست دان نہیں ہرا سکے آج اُس بلور خاندان سے جیت کر یوتھ ونگ کا صدر مینا خان آفریدی حلف لے رہا ہے۔ جن فاٹا کی نشستوں پر ایک خاندان سے دوسرے خاندان کی باریاں لگتی تھیں اُس کے نمائندگی میرے بازو سہیل آفریدی کے پاس ہے۔
کہا کہ وہ جس کو پختونخوا میں عمران خان کی سیاست کو دفن کرنے کا دعوی تھا، اُس کی رعونت پر آخری فاتحہ پڑھنے والا شاہ احد میرے آئی ایس ایف (انصاف سٹوڈںٹ فیڈریشن) کا نوجوان ہے۔ پختونخوا میں مسلم لیگ کے آخری قلعہ ہزارہ پر یوتھ ونگ کے اکرام خان غازی نے انصاف کا پرچم لہرایا، شیر علی آفریدی، شاہد خٹک، اب کتنوں پر کاٹا لگانا ہے؟
۲۰۱۳ کے انتخابات کے وقت جب ٹکٹس کے فیصلے ہورہے تھے تو اُس وقت کے پارٹی کے کرتا دھرتاؤں نے میرے ٹکٹ کی بھرپور مخالفت کی۔ “نوجوان ہے، سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں ہے، نا اپنا کوئی ووٹ ہے نا خاندان کا”۔ صرف ایک شخص تھا جس کو یقین تھا کہ پاکستان بدل چکا ہے اور اِس تبدیلی کا “پوسٹر بوائے”…
— Murad Saeed (@MuradSaeedPTI) February 28, 2024
انہوں نے کہا کہ مجھے انتخابات سے باہر کردیا اور میدان سے بھی ہٹنے پر مجبور کردیا لیکن شور کم ہوا کیا؟ مجھ سے اونچا بول رہا ہے صدام ترین، پارلیمان میں جگہ بناتے تو شاید اُسے سال لگ جاتے مگر اُس کا حق چھین کر آپ نے اُس کی آواز دنوں میں گھر گھر پہنچا دی۔ قاسم خان سوری نہیں ہے، تو سالار کاکڑ ہے آپ نے اُس کا مینڈیٹ جس کو بھی دیا عوام کے لیے تو وہی نمائندہ ہے جس کو انہوں نے ووٹ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمگیر محسود اور ارسلان گھمن کو قیادت سے دور رکھا تھا، اپنے ہاتھوں ان کا راستہ صاف کردیا۔ آج ان کی سیٹیں لے کر اوروں کی جھولی میں ڈال بھی دیں تو کون سی کسی نے عزت سمیٹ لی اور کون سی ہار انہوں نے تسلیم کرلی؟
مراد سعید نے کہا کہ اور یہ تو وہ نام ہیں جو ہم سُن رہے ہیں۔ 2 سال سے پارٹی کو کون زندہ رکھے ہوئے ہے؟ عمران خان تو 6 مہینے سے جیل میں ہے، مجھ سے فسادی بھی منظر سے غائب ہوگئے۔ جن پہ تکیہ تھا وہ بڑے بڑے نام توڑ دیے؟ ’لیڈر‘ لیڈر نہیں رہے۔ کوئی حرص و ہوس میں لُڑک گیا۔ کوئی جبر کے سامنے ہار گیا۔ کسی نے گھر بار کی عزت بچائی تو کوئی آل اولاد کے نام پر ٹوٹ گیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک سہارا تھا انتخابی نشان کہ کھمبے کو بھی ملا تو لوگ سر آنکھوں پر بٹھائیں گے وہ بھی لے لیا۔ پھر کون تھا کہ جس نے گاجر، مولی، گائے، بھینس، چمٹے، پیالے گھر گھر پہنچائے؟ پاکستان کے عوام، بچے بچے کو ازبر تھا کہ عمران خان کا نشان کون سا ہے۔ فقط جوان نہیں۔ 8 سے 10 سال کے بچوں کو بھی علم ہے کہ عمران خان کیا ہے۔ ایک مراد سعید خاموش ہوا تو اتنی زبانیں کھل گئیں، اتنی زبانیں کھینچوگے تو کتنے سر گویا ہوں گے کوئی اندازہ ہے؟
مراد سعید نے لکھا کہ آج سے 10 سال پہلے ایک بڑے صحافی کا فون آیا تھا، دُکھی تھا، ایک بہت بڑے سیاست دان نے کہا تھا ’دیکھو! یہ کیسے لوگوں کو لے آیا ہے عمران خان پارلیمان میں۔ اب یہ بیٹھیں گے ہمارے برابر؟۔ وہ آج اور بھی تلملا رہا ہے، عمران خان نے اُس کے ولی عہد کی تاج پوشی کے امکانات خاک کردیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بہت سوں کے قدموں تلے سے زمین سرکی ہے ابھی جبر کے ہاتھ نہیں تھمے جب ہاتھ تھک جائیں گے (جو کہ تھکیں گے کیونکہ انہیں بھلے خدائی کا دعوی ہو، لیکن ہیں یہ انسان ہی) تو گمنامی کے اندھیروں میں گُم ہوئے لوگوں کی خواہشوں کو زباں ملے گی۔ تب تک جمے رہنا ہے۔ منزل پر نظر رکھنی ہے۔ اپنا حق واپس لینا ہے۔ برابر نہیں برتر ہو تم، مالک ہو تم۔