تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان اس وقت بڑے بحران کا شکار ہے۔عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں بحران قابو سے باہر ہوجائے گا۔
لاہور ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں فواد چودھری کا کہنا تھا کہ ہم عدالت میں سرینڈر کریں گے پولیس کے سامنے نہیں۔ عدالت جو حکم دے گی۔ اس پر من وعن عمل کریں گے۔
فود چودھری کے مطابق ضمانتی بانڈ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کیا ہے کہ عمران خان 18مارچ کو عدالت میں پیش ہوجائیں گے۔ اس قبل بھی عمران خان 8 تاریخ کو اسلام آباد کی 4عدالتوں میں پیش ہوچک ہیں۔
’اس عدالت میں اس لیے پیش نہیں ہوئے کہ ہمیں خاص طور پر اطلاع تھی کہ عمران خان پر ایف ایٹ کچہری میں قاتلانہ حملہ ہونا ہے، ہم نے اس حملے کا اسلام آباد کے آئی جی کو بھی بتایا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھی بتایا۔‘
فواد چودھری نے کہا کہ ہم نے انہیں کو دو آپشنز دیے کہ یا تو آپ عمران خان کی حاضری جوڈیشل کمپلیکس میں آ کے لگا لیں، دوسری صورت میں ہم عمران خان کو ویڈیو لنک کی سہولت دیدیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان پر جس شخص نے قاتلانہ حملہ کیا ہے وہ کبھی عدالت میں پیش نہیں ہوتا۔ اس کی ویڈیو لنک سے پیشہ ممکن بنائی جاتی ہے۔
’دوسری جانب حملہ کا نشانہ بننے والے کو ایک عدالت سے دوسری عدالت بھیجا جارہا ہے تاکہ انہیں (عمران خان) کو ایکسپوز کیا جائے قاتلانہ حملے کے لیے اور اس ملک میں جمہوریت کو تلپٹ کیا جائے اور الیکشن روکے جائیں۔‘
رہنما تحریک انصاف نے کہا کہ مریم نواز اور ن لیگ کا صرف ایک ایجنڈا ہے کہ اس ملک میں خون خرابہ ہو اور اس ملک میں الیکشن نہ ہوں۔ اس کے لیے محسن نقوی، آئی جی پنجاب اور رانا ثناء اللہ ایک مہرے کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔
’یہ وہ تین مہرے ہیں جن کو اس وقت جاتی امراء استعمال کر رہا ہے پاکستان کے اندر فساد کے لیے تاکہ ملک میں انتخابات روکے جا سکیں۔
فواد چودھری کے مطابق ان کی جماعت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ جو فیصلہ عدالت سے آئے گا اس پر من و عن عمل ہو گا۔ ’آپ لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، آپ عمران خان کی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔‘
فواد چودھری نے کہا کہ زمان پارک میں آنسو گیس کی شیلنگ سے بچوں کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ انہوں نے پولیس سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی کوئی ٹریننگ نہیں ہے۔ وہاں پر لوگوں کی جان کا نقصان ہو گا۔ ا
فواد چودھری نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے، اس کے بعد ہم کوئی لائحہ عمل دیں گے اسی دوران ہم لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کا بھی انتظار کریں گے۔