موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
غالب نے یہ شعر بالکل بھی انسٹاگرام، ٹویٹر اور ٹک ٹاک کو ذہن میں رکھ کے نہیں لکھا تھا۔ وہ سچ میں موت کی ٹینشن کی بات کر رہے تھے۔ لیکن زمانہ ایسا بدلا کے اب موت کی بجائے پریشانی یہ ہوتی ہے کہ واٹس ایپ پر میرا میسج سین ہوا یا نہیں؟ اگر ہو گیا ہے تو جواب کیوں نہیں آیا؟ اور اگر جواب آیا ہے تو 4 منٹ دیر سے کیوں؟ بس یہی حساب کتاب اب سونے نہیں دیتا۔ ویسے کیا غالب اپنا فون میوٹ پر رکھتے تھے؟ سوچ کر بتائیے گا۔
آج سونے (نیند) کا عالمی دن ہے، کتنے تعجب کی بات لگتی ہے نا۔ ہے یہ سونے کا عالمی دن اور سو کوئی بھی نہیں رہا۔ میں جاگ کر یہ لکھ رہی ہوں اور آپ جاگ کر یہ پڑھ رہے ہیں۔ کوئی جاگ کے اِس تحریر پر غور کر رہا ہے تو کوئی جاگ کر اسے اگنور کر رہا ہے، جیسے یہ دن اگنور ہوتا ہے۔ ہم پہلی اور آخری بار تب ہی سوئے تھے جب ہم پیدا ہوا تھے۔ وہ بھی مسئلہ یہ تھا کہ آنکھیں نہیں کھلتی تھیں ورنہ اس وقت بھی ہم جاگ ہی رہے ہوتے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں سونے سے شدید نفرت تھی۔ ایک ہوتی تھی امی کی جوتی اور ساتھ ہی ہوتا تھا بستر۔ اور ہر بار لیٹنے پر نیند بھی فوراً آ جاتی تھی لیکن نیند سے نفرت بر قرار تھی۔
پھر جب کالج اور یونیورسٹی جانے والے ہوئے تو نیند تو بہت تھی لیکن جانو بھی بہت سے تھے۔ جب ماں باپ سو جاتے تھے تو جانو کے خیال سے نیند اُڑ جاتی تھی۔ وہ ساری رات جاگ کر جانو سے بات کرنا اور اگلے دن پیپر میں فیل ہونا، یقیناٌغالب نے یہ نہیں کہا تھا۔ اور پِھر جب بات کرتے کرتے ایک جانو کا فون پر ہی سو جانا، واہ! بندہ قربان کر دے ساری نیندیں اِس رومانس پر۔۔۔
نیند کی اصل اہمیت سیاست میں نظر آئی۔ پارلیمنٹ میں اکثر افراد سوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کچھ اپنے دفاتر میں سوئے نظر آتے ہیں۔ اور تو اور سیاسی گرما گرمی میں ایک پورے صوبے کو ہی جگانے کی بات شروع ہوجاتی ہے، جیسے جاگ پنجاب جاگ۔ اب ایک صوبہ اگر سو ہی گیا ہے تو اسے سو لینے دو۔ کسی کو تو سو لینے دیجیے نا! سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ ہمارے سرکاری اداروں میں لوگ جاگے جاگے سوئے ہوتے ہیں۔ آنکھیں کھلی ہیں، لیکن سو رہے ہیں۔ اُنہیں کچھ پتہ نہیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں، اُنہیں کچھ پتہ نہیں کہ انہوں نے کیا کہنا ہے۔ یہ بھی ایک خاص قسِم کا سونا ہے۔
سونے والے کم نا ہوں گے، تیری محفل میں لیکن کافی سارے ٹن بھی ہوں گے ۔ ان سب میں کچھ لوگ میرے جیسے بھی ہیں جو ہر بات پر جا کر سو جاتے ہیں۔ مسئلے کا حل نہیں نکل رہا؟ سو جاؤ۔ کسی سے ملاقات نہیں ہو سکی؟ سو جاؤ۔ کسی نے دِل توڑدیا ہے؟ سو جاؤ۔ کوئی بات کرنا چاہ رہا ہے تو کہو کہ ابھی بہت نیند آ رہی ہے، ابھی بات نہیں ہو سکتی۔ اور سو جاؤ۔
یہ ہمارے کمزور کندھے ہی ہیں جو دنیا بھر کی نیند اٹھائے پھرتے ہیں۔ جب ساری دنیا نیند سے بیزار ہوئی پھرتی ہے، اس وقت میں اور میرے جیسے لوگ سو سو کے اپنا سب کچھ برباد کر لیتے ہیں۔آخر اس قربانی کا اجر کون دے گا؟؟