گزشتہ روز سے سابق وزیرِاعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی گرفتاری کے لیے زمان پارک میدانِ جنگ بنا ہوا ہے اور ایسے میں سوشل میڈیا پر یہ بحث چل پڑی ہے کہ عمران خان کو گرفتاری پیش کردینی چاہیے یا نہیں۔
اسی بحث کے دوران ہم نے کوشش کی کہ آپ تک ماضی میں سیاسی رہنماؤں کی جانب سے پیش کی جانے والی گرفتاریوں کے واقعات پیش کیے جائیں۔
نواز شریف کی گرفتاری: جولائی 2018ء
سابق وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو پانامہ کیسز کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب ٹیم نے جولائی 2018ء کو لندن سے پاکستان پہنچنے پر جہاز کے اندر سے ہی گرفتار کرلیا تھا۔
علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر طیارے کے اترتے ہی 3 خواتین اہلکاروں سمیت نیب کی 16 رکنی ٹیم نے قانونی کارروائی شروع کردی۔ اس دوران ایف آئی اے اہلکاروں نے نواز شریف اور مریم نواز کے پاسپورٹس تحویل میں لے لیے اور دونوں کی امیگریشن جہاز کے اندر ہی کر لی گئی۔
تمام قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد دونوں رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا جس کے بعد خصوصی طیارہ انہیں لے کر اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچا جہاں سے دونوں کو الگ الگ اسکواڈ کے ذریعے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ یہ تمام عمل پُرامن رہا۔ اگرچہ نواز شریف کے استقبال کے لیے میاں شہباز شریف کی قیادت میں قافلہ لاہور ایئرپورٹ کی جانب رواں دواں تھا مگر وہ وہاں تک پہنچ نہ سکا اور گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں اس پورے واقعے پر افسوس کا اظہار بھی کیا تھا۔
آصف علی زرداری کی گرفتاری: جون 2019ء
اسی طرح سابق صدرِ پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کے سلسلے میں 10 جون 2019ء کو اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے وقت آصف زرداری مسکراتے رہے اور جب سیکیورٹی اہلکار سابق صدر آصف علی زرداری کو گرفتار کرنے آئے تو صدر زرداری نے ان سے حال احوال پوچھا اور چائے اور بسکٹ سے تواضع بھی کی۔ اس موقع پر انہوں نے بیٹے بلاول بھٹو اور بیٹی کو گلے لگایا اور جیل روانہ ہوگئے۔ اس وقت بڑی تعداد میں کارکن زرداری ہاؤس کے باہر موجود تھے مگر آصف زرداری نے کسی کو تشدد پر نہیں اکسایا بلکہ عدالتوں کا سامنا کیا۔
باوقار انداز اور مسکراتا چہرہ ۔۔ ایسے ہوتی ہے گرفتاری، جب سیکیورٹی اہل کار سابق صدر آصف علی زرداری کو گرفتار کرنے آئے تو صدر زرداری نے ان سے حال احوال کیا، چائے اور بسکٹ سے تواضع کی، بیٹے اور بیٹی کو گلے لگایا اور جیل روانہ ہوگئے pic.twitter.com/8HaV8uy9m7
— Ammar Masood (@ammarmasood3) March 15, 2023
آصف علی زرداری کی گرفتاری پر کارکنان نے کراچی اور سندھ کے متعدد شہروں میں علامتی احتجاج بھی کیا تاہم یہ احتجاج بھی پُرامن طور پر ختم ہو گیا۔
شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری: جولائی 2019ء
18 جولائی 2019ء کو سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی جب پارٹی صدر شہباز شریف کی پریس کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور جارہے تھے تو انہیں لاہور موٹر وے ٹول پلازہ کے قریب سے حراست میں لیا گیا تھا۔
شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی ریفرنس کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب راولپنڈی نے طلب کر رکھا تھا تاہم وہ پیش نہ ہوئے جس پر انہیں گرفتار کرکے اسلام آباد منتقل کردیا گیا تھا۔
گرفتاری کے وقت احسن اقبال اور مریم اورنگزیب بھی گاڑی میں موجود تھے۔ شاہد خاقان عباسی نے گاڑی کو لاک کر رکھا تھا اور پولیس سے کہہ رہے تھے کہ ‘وارنٹ گرفتاری دکھا دیں اور میں گرفتاری دے دیتا ہوں’۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی 18 جولائی 2019 کو لاہور میں تھے نیب اور پولیس نے گاڑی گھیرے میں لی , بولے وارنٹ دکھائیں آپکے ساتھ جاؤں گا’۔ عباسی بھی ہنستے کھیلتے گرفتار ہوئے ، شکایت کی نہ اپنے کارکنوں کو پولیس پر حملوں کا حکم دیا۔@ShahidKhaqanA pic.twitter.com/31ec7q4Js5
— Azaz Syed (@AzazSyed) March 15, 2023
احسن اقبال کے مطابق گرفتار کرنے کے لیے آنے والوں نے واٹس ایپ پر گرفتاری کا حکم نامہ دکھایا جس پر حکام سے اصلی وارنٹ دکھانے کا مطالبہ کیا تو کچھ دیر کے بعد وہ ایک ‘غیر تصدیق شدہ فوٹو کاپی’ لے آئے جسے دکھا کر شاہد خاقان عباسی کو گرفتار کیا گیا۔ شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری کے بعد بھی کوئی احتجاج نہیں ہوا اور نہی ہی امن و امان کی صورتحال پیدا ہوئی۔