توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے وارنٹ گرفتاری برقرار، سیشن کورٹ نے فیصلہ سنادیا

جمعرات 16 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے توشہ خانہ فوجداری کارروائی میں وارنٹ معطلی کی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا۔

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے عمران خان کی ناقابل ضمانت وارنٹ معطلی کی درخواست خارج کردی جس کے نتیجے میں چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری کے ناقابل ضمانت وارنٹ برقرار رہیں گے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ وارنٹ کیا ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے ہم نے تفصیلی فیصلہ دے دیا ہے۔

قبل ازیں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے ایڈیشنل جج ظفراقبال نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں جاری ہونے والے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی منسوخی کی درخواست کی سماعت میں وکلا کے دلائل سننے کے بعد، فیصلہ محفوظ کرلیا۔

آج توشہ خانہ کیس میں وقفے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو آئی جی اسلام اباد اکبر ناصر اور الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن پیش ہوئے۔

ایڈیشنل سیشن جج ظفراقبال نے آئی جی پولیس اسلام آباد سے استفسار کیا، آئی جی صاحب ! جواب دیں اب تک وارنٹ گرفتاری پرعملدرآمد کیوں نہیں ہوا؟

آئی جی پولیس اسلام آباد نے جواب دیا کہ اسلام آباد پولیس کے کسی نمائندے کو عمران خان سے ملنے نہیں دیاگیا، ہمارے آفیسرز کو ملزم سے ملنے نہیں دیا گیا، کارکنان کی جانب سے طاقت کے استعمال سے پولیس کو روکا ہوا ہے، ہمارے سینئر آفیسرز وہاں پر موجود ہیں، ہماری پولیس فورس کا سامنا پتھروں، پیٹرول بم، ڈنڈوں سے کیا گیا۔ آئی جی نے کہا کہ میں ان 65 اہلکاروں کی جانب سے بھی حاضر ہوا ہوں جو زخمی اسپتالوں میں ہیں، ہمیں اس سے پہلے کبھی اس کا سامنا نہیں کرنا پڑا ماسوائے جہاں دہشتگردی تھی۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے اہلکاروں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔

آئی جی پولیس نے اس موقع پر زخمی افسران اور اہلکاروں کی فہرست پیش کی جبکہ زمان پارک میں رونما ہونے والے واقعات کی تصاویر بھی پیش کیں۔

آئی جی نے کہا کہ  میں پولیس اہلکاروں کی فیملی کو کیا جواب دوں جن کے بیٹوں پر لاہورمیں ظلم ہوا، ماضی میں گھروں سے عدالت لے کر آنا پولیس کے لیے معمول کی بات رہی ہے۔ اگر ایک شخص کو رعایت ملتی ہے تو دیگر کو بھی ملنا چاہیے۔ آئین کے سامنے تمام افراد یکساں ہیں۔آئی جی پولیس نے کہا کہ میری رائے ہے کہ ایک شخص کو رعایت دینا چاہتے ہیں تو باقی 22 کروڑ کو بھی دیں، آئین پاکستان کا آرٹیکل 25 کہتا ہے قانون سب کیلئے برابر ہے۔

اس پر تحریک انصاف کے وکلاء نے شور شرابا شروع کردیا۔ ان کا موقف تھا کہ آئی جی سیاسی گفتگو کر رہے ہیں۔

عدالت نے آئی جی پولیس سے پوچھا کہ املاک کو کتنا نقصان ہوا ہے؟ آئی جی نے جواب دیا کہ پولیس کی 10 گاڑیاں، واٹر کینن جلائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نقصان کا تخمینہ لاہور میں لگایا جا رہا ہے۔

اس کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل کا آغاز کیا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ملزم کی جانب سے یہ تیسری درخواست ہے، ہر دفعہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس عدالت کے حکم کو قانونی قرار دیا، ملزم کی جانب سے پہلے بھی پیشی کی انڈرٹیکنگ دی جا چکی ہیں، کسی کا پاس پیش نہیں ہوا، کئی بار تو میں نے بھی کہا کہ ان کو رعایت دے دیں، عمران خان نے لاہور میں ریلی نکالی، سکیورٹی کا بہانہ ناقابل قبول ہے، آج جو انڈرٹیکنگ آئی ہے اس کو سابقہ انڈرٹیکنگ کے ساتھ رکھ کر دیکھا جائے، میں نے بہت کوشش کی کہ اس انڈر ٹیکنگ میں کچھ مختلف ڈھونڈ سکوں، کچھ spellings mistake کے علاوہ کچھ بھی مختلف نہیں ہے، عدالتوں میں ٹاؤٹ بھی بیٹھے ہوتے ہیں وہ بھی انڈرٹیکنگ دے دیتے ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن کے ٹاؤٹ کہنے پر پی ٹی آئی وکلاء سیخ پا ہوگئے۔ انھوں نے وکیل الیکشن کمیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہوں گے ٹاؤٹ !

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انہوں نے کسی کے بارے میں نہیں کہا، کسی وکیل کا نام نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ شور مچاتے رہتے ہیں۔ پیچھے سے، سنیں گے تو بات سمجھ آئے گی۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ اس عدالت میں ایسی پہلے کوئی انڈرٹیکنگ نہیں دی گئی، ریکارڈ موجود ہے۔ یہ اس عدالت میں پہلی انڈرٹیکنگ ہے جو ملزم نے خود لکھ کر دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے ساتھ جو زیادتی ہوئی اس کا یہ فورم نہیں ہے۔ پولیس کے ساتھ زیادتی کا تدارک ان ایف آئی آرز میں ہونا ہے جو یہ کروا کر آئے ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا انڈرٹیکنگ ٹرائل کورٹ کے پاس لے جائیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو کہا کہ آپ انڈرٹیکنگ کی تصدیق کرکے شورٹی منظور کریں۔ میں نے وارنٹ منسوخی کا نہیں کہا، بس معطل کرنے کی استدعا کی۔ وارنٹ منسوخ کردیں، دو دن کی بات ہے عمران خان 18 مارچ کو پیش ہو جائیں گے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ  ہم نے بھی مانا کہ پولیس کے ساتھ زیادتی ہوئی، غلط ہوا۔

بعدازاں عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

آج صبح کی سماعت کے دوران کیا ہوا؟

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکلاء کی جانب سے وارنٹِ گرفتاری معطل کرنے کی استدعا  پر عدالت نے الیکشن کمیشن کو آج 12 بجے تک پیشی کا نوٹس بھیجتے ہوئے سماعت میں وفقہ کردیا ہے۔

دوران سماعت ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے استفسار کیا کہ قانون کے مطابق جاری ہونیوالے وارنٹِ گرفتاری پر مزاحمت کیوں ہوئی؟ عوام کے پیسے ہیں، زیادہ سے زیادہ پُر امن احتجاج کر لیتے۔جس پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث بولے؛ حکومت پر کیس کرنا چاہیے کہ کروڑوں روپے ضائع کر دیے۔

جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کی گرفتاری کا وارنٹ پاکستان کا ہی نہیں دنیا کا سب سے مہنگا وارنٹ بن گیا ہے۔ کروڑوں روپے کے حکومتی اخراجات اس وارنٹ پر  آئے ہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ حکومت سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔گرفتاریاں ہوئی ہیں۔زمان پارک میں جو ہو رہا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔

جج ظفر اقبال نے کہا کہ فوجداری کارروائی میں عموماً ملزمان ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ ملزمان عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور وارنٹ ختم ہو جاتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ وارنٹ کی تاریخ 18 مارچ ہے اور پولیس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا وارنٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ جس پر جج نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ اب تک عدالتی طریقہ کار سے سیشن عدالت کو نہیں ملا۔

جج نے کہا کہ آپ جو دلائل دے رہے ہیں وہ قابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری کے مطابق ہیں، کیس میں ضمانت تو آئی ہوئی ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ کیا یہی سختی رکھنی ہے کہ عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری رکھنے ہیں۔ جج نے کہا کہ وارنٹِ گرفتاری عمران خان کی ذاتی حیثیت میں پیشی کے لیے ہیں۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کا موقف تھا کہ عمران خان تو خود عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں۔ اس وقت ناقابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری کی کیا ضرورت ہے؟ آپ چاہیں تو بیان حلفی کی درخواست منظور کر کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ منسوخ کر دیں یا پھر ضمانت لے کر قابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری جاری کریں۔

’عمران خان بیان حلفی دینا چاہتے ہیں کہ 18 مارچ کو سیشن عدالت میں پیش ہوں گے۔‘

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے سوال کیا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کیس قابلِ سماعت ہونے سے متعلق الیکشن کمیشن کو نوٹس دینا چاہیے؟ مسئلہ ایک سیکنڈ میں حل ہو سکتا ہے۔ عمران خان کہاں ہیں؟ عمران خان ذاتی حیثیت میں عدالت میں کہاں پیش ہوئے ہیں؟ بیان حلفی کا خیال کہاں پر ہے؟

وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا ضروری ہے کہ عمران خان کو گرفتار کر کے ہی عدالت لائیں؟جج نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان عدالت آ جائیں، وہ کیوں نہیں آ رہے؟ وجہ کیا ہے؟ قانون کے مطابق عمران خان نے پولیس سے تعاون کرنا ہے مزاحمت نہیں۔

جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیے کہ عمران خان نے مزاحمت کر کے سین بنایا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ غیر قانونی عمل سے آرڈر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر قابلِ ضمانت وارنٹ ہوتے تو مسئلہ ہی کچھ نہ ہوتا، وارنٹ ناقابلِ ضمانت ہیں۔

بعد ازاں ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے عدالتی عملے کو ہدایات دیں کہ الیکشن کمیشن کو کہیں کہ 12 بجے تک عدالت پہنچیں۔ اس کے ساتھ ہی 12 بجے تک سماعت میں وقفہ کر دیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp