پاکستان کے معروف ڈراما، فلم رائٹر اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عاطف ریحان صدیق نے کہا ہے کہ عمران خان نے ملک میں ’سائیکالوجیکل مینیپولیشن‘ کر کے عوام کے جذبات سے کھیلے ہیں، لوگوں کو یہ بات اب سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان جو کہتے ہیں وہ سچ ہے یا نہیں؟، انہوں نے ملک میں ’کلٹ مینٹیلٹی ‘ (کرشماتی شخصیت) کا روپ دھار لیا ہے، اسے ختم کرنے کے لیے انصاف کا نظام قائم کرنا ہوگا۔
معروف اسکرین پلے اور فلم رائٹر عاطف ریحان صدیق نے وی نیوز کے ساتھ اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ان کا پورا خاندان ہی پاکستان تحریک انصاف میں تھا ، حتیٰ کہ ’ میں نے 1997 کے الیکشن میں عمران خان کی ڈور ٹو ڈور کمپین بھی چلائی تھی لیکن بعدازاں 2013 میں، میں نے تحریک انصاف کو چھوڑ دیا تھا’۔
عمران خان پر ان کی لکھی ہوئی ڈاکومینٹری فلم ’ The Beginner’s Guide to Destroying a Nationا‘ سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کا 1996 سے ممبر چلا آ رہا تھا، اس فلم سے متعلق یہ کام ایک ایسا کام تھا جو کافی عرصہ پہلے سے ہی کرنے والا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو چھوڑنے کی کچھ وجوہات تھیں، ایک تو یہ کہ عمر کے حساب سے جوں جوں آپ میچیور ہوتے ہیں آپ کو چیزوں کی زیادہ سمجھ آنے لگتی ہے۔
ویسا کوئی نظریہ نہیں ہے جیسا کہ عمران خان کہتے ہیں
دوسری وجہ یہ تھی کہ جب عمران خان نے دیگر پارٹی کے رہنماؤں جیسا کہ شیخ رشید جیسے لوگ تھے ان کے ساتھ کٹھ جوڑ شروع کر دیا تو ہمیں بھی یہ خیال آیا کہ شاید ویسا کوئی نظریہ نہیں ہے جیسا کہ عمران خان کہتے ہیں، عمران خان بہت سی چیزوں میں کمپرومائز کرنے لگے تھے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے قول و فعل میں تضاد بہت کم لوگوں کو نظر آتا ہے، کیوں کہ یہ بھی ’بائی ڈیزائن‘ ہے۔
ہمیں معلوم نہیں ایک تہذیب یافتہ سوسائٹی میں کیسے رہتے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عملاً قانون و انصاف کا کوئی نظام موجود نہیں ہے، عوام کو قانون کا علم تک نہیں، پولیس والا اشارے پر کھڑا نہ ہو تو ہم لال بتی کے قانون کو اس لیے توڑ دیتے ہیں کہ ہم میں اس کے نتائج اور سزا کا ادراک نہیں ہے، ہمیں یہ تک نہیں معلوم کہ ایک تہذیب یافتہ سوسائٹی میں کیسے رہا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہمیشہ طاقت ور لوگ ہی قانون اور انصاف کی خلاف ورزی کرتے ہیں،
ملک کے ساتھ جان بوجھ کر مذاق کیا جا رہا ہے
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس ملک کے ساتھ جان بوجھ کر مذاق کیا جا رہا ہے، اس کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جسے بری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے یا پھر اسے کھلے عام زیر بحث نہیں لایا جاتا۔
ملک کے ساتھ خوفناک ’سائیکالوجیکل مینیپولیشن‘ کی گئی
یہ ایک ایسا پہلو ہے جس میں اس ملک کے ساتھ ’سائیکالوجیکل مینیپولیشن‘ (نفسیاتی ہیرا پھیری) کی گئی ہے، یہ کوئی مذاق نہیں ہے اسے جتنا بھی سیریس لیا جائے کم ہے۔
عمران خان کی کہی ہوئی کسی بات کا کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا
انہوں نے کہا کہ ’ آپ کو کیسے پتا چلتا ہے کہ عمران خان جو کہہ رہے ہیں وہ بالکل درست ہے، ایسا آپ کو یا میڈیا کے ذریعے پتا چلتا ہے یا سوشل میڈیا کے ذریعے، ان کی کہی ہوئی بات کے کوئی ثبوت سامنے تو نہیں رکھے جاتے، یہ اتنا زیادہ بتایا جا رہا ہے کہ ایک مرتبہ عام آدمی کو بھی لگتا ہے کہ ’مجھے تو اس کا پتا نہیں لیکن شاہد وہ جیسا کہہ رہے ہیں ویسا ہی ہوگا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب یہاں ہی سے ایک سائیکالوجیکل مینیپولیشن‘ کا سائیکل شروع ہوتا ہے۔ اس نفسیاتی ہیرا پھیری میں جو مہارتیں استعمال کی گئیں انہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں تو ان مہارتوں کو استعمال کرنے کے لیے کسی کے پاس عقل ہو گی ہی نہیں کہ وہ اتنی نفسیاتی ہیرا پھیری کر سکے۔
عمران خان نے انتہائی منظم اور سوچی سمجھی ’زمبیفیکیشن ‘ حکمت عملی اپنائی
انہوں نے کہا کہ اس میں اتنی زیادہ منظم اور سوچی سمجھی ’زمبیفیکیشن‘ حکمت عملی اختیار کی گئی ہے ، اس حکمت میں لوگوں کے جذبات سے کھیلنا اور ان کے ذہنوں کو ماؤف کر دینا شامل ہے۔ اس حکمت عملی میں لوگوں کو ایک ایسے جذبات میں لے جانا ہے کہ انہیں سمجھ ہی نہ آئے کہ اصل میں ہو کیا رہا ہے۔
عمران خان نے عوام کی نفسیات سے کھیلنے میں کوئی حربہ نہیں چھوڑا
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کوئی ایسا جذبہ اور حربہ چھوڑا نہیں جسے انہوں نے استعمال نہ کیا ہو، جہاں عمران خان کے ہیروازم کو ہائی لائٹ کرنا تھا وہاں انہوں نے اس پر عوام کو جذباتی کر دیا، انہوں نے جہاں اسلام کو استعمال کرنا تھا وہاں انہوں نے اسلام پر لوگوں کو جذباتی کر دیا کہ یہ کوئی امت مسلمہ کا کوئی بہت بڑا لیڈر ہے۔
کیا عمران خان کا کردار امت مسلمہ کے لیڈر کا عکاس ہے؟
اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ عمران خان اُمت مسلمہ کے لیڈر ہیں یا نہیں ؟ کیا ان کا کردار اس بات کو ثابت کرتا ہے یا نہیں ؟ یہاں یہ بات ان کے کردار سے ہی غیر متعلقہ ہو جاتی ہے۔ انہوں نے ہماری عوام کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا، ہم مذہب کے نام پر خاص طور پر ایک جذباتی قوم ہیں، اس چیز کا فائدہ اٹھایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے عمران خان پر ڈاکومینٹری بناتے ہوئے بہت سے خوف سے گزرنا پڑا، انہوں نے کہا کہ ایک ایسا مرحلہ آیا کہ آپ عمران خان کے خلاف اپنی کسی رائے کا اظہار ہی نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ اس ’نفسیاتی ہیرا پھیری ‘ کو اس قدر منظم انداز سے استعمال کیا گیا کہ عمران خان کے فین فالورز ان کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہوتے تھے۔
پچھلے 10 سے 15 سالوں میں خوفناک سائیکالوجیکل مینیپولیشن ہوئی
پچھلے 10 سے 15 سالوں سے پاکستانیوں کے ساتھ اتنی خوفناک سائیکالوجیکل مینیپولیشن ہوئی ہے کہ اس میں اختلاف رائے رکھنے سے بات نہیں سلجھے گی اسے ختم کرنے کے لیے معروضی بنیادوں پر سوچنا ہوگا۔
پورے ملک میں ’کلٹ‘ مینٹیلیٹی‘ پیدا ہو گئی ہے
اب تو پورے ملک میں ’کلٹ‘ مینٹیلیٹی (کرشماتی شخصیت والی سوچ) پیدا ہو گئی ہے، کلٹ مینٹیلیٹی پوری دُنیا میں ہوتی ہے لیکن پاکستان میں اس کا پھیلاؤ اس قدر خوفناک ہے کہ اب لوگوں کے ذہنوں سے اسے دھونے کے لیے منظم حکمت عملی اپنانا ہو گی، یہ اب آزادیٔ اظہار رائے سے ختم نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ کلٹ مینٹیلیٹی کے خاتمے کے لیے ہتک عزت کے قانون پر عملدرآمد اور انصاف کا نظام قائم کرنا ہوگا۔
اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے عاطف ریحان صدیق نے کہا کہ میرا کنزویٹو فیملی سے تعلق تھا، کیرئیر کا آغاز تھیٹر سے کیا، عمرو عیار اور انسپکٹر جمشید پر فلم بنانے کاخیال کچھ کمپنیز کا تھا جسے میں نے عملی جامہ پہنایا۔ مجھے اسکرین پلے کے لیے منتخب کیا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں اسکرین پلے بہت کمزور ہے، اس کی ایک وجہ پاکستان میں ایک وقت ایسا آیا جب پرویز مشرف کے دور میں ایک دم میڈیا کو آزادی مل گئی اور بہت سے ٹی وی چیلنز سامنے آ گئے اور اسکرین پلے رائٹرز کی بھی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو گیا۔
پہلا سوال یہ ہے کہ آیا ہم اس کو کوالیفائی کرنے کے اہل تھے یا نہیں اس سے قطع نظر لوگوں نے لکھنا شروع کر دیا، جس نے جو لکھا وہ چل بھی گیا اور آپ لکھاری بن گئے۔
میڈیا ایک تعلیمی اور انٹرٹیمنٹ پلیٹ فارم ہے اور انٹرٹیمنٹ تعلیم کے بغیر ہوتی نہیں، یہ کسی ایجنڈے کے بغیر بھی نہیں ہوتی اس لیے پاکستان میں انتہائی غیر ذمہ دارانہ لکھا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اس بات کا تو خیال رکھا ہی نہیں جاتا کہ ہم جو کچھ لکھ رہے ہیں یا اسکرین پر دکھا رہے ہیں اس کا سامعین یا ناظرین پر کیا اثر ہو گا۔
پاکستان میں ڈراما کو اٹھا کر دیکھیں تو ہر ڈراما میں شادی بیاہ کے معاملات چل رہے ہوتے ہیں، یا عورت کو انتہائی مظلوم بنا کر دکھایا جاتا ہے۔
کمرشل کنٹنٹ باہر بھی چلتا ہے لیکن ایسا نہیں جیسا ہمارے ہاں ہو رہا ہے، ہمارے ہاں تو ڈراما ہی کمرشل بنیادوں پر بنایا جاتا ہے، جب کہ ڈراما اور فلم باقاعدہ ایک سائیکالوجیکل ٹولز ہیں، جن سے سوسائٹی کو جس طرح چاہیں آپ سکھا سکتے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں نوجوان نسل میں لکھنے کا رجحان بہت کم ہے لیکن ایسا بالکل نہیں کہ پاکستان میں لکھنے کا ٹیلنٹ اور پوٹینشل نہیں ہے، پاکستان میں بہت ٹیلنٹ موجود ہے۔