عظیم کامیڈین کی 13 ویں برسی پر تحریر
‘ دوست چھوڑ گئے، حکومت کی طرف سے وعدے اور باتیں ہیں، بس موت کے دن گن رہا ہوں’ یہ الفاظ تھےآبدیدہ ہوتے ببو برال کے جو انہوں نے اپنی موت سے چند ماہ قبل ایک مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہے۔ دل برداشتہ ببو برال کا کہنا تھا کہ چند مخیر سینئر فنکار ان کا علاج کراسکتے ہیں لیکن لوگ مرنا بھول گئے ہیں۔
جوکمایا خرچ کردیا، علاج کے لیے رقم نہیں، کیا دکھڑا سناؤں، مجھ سے زیادہ دکھی روتے پھرتے ہیں۔ آنکھیں اشکبار ہوئیں تو یہ گنگناتےہوئے دل کا حال بیان کیا کہ ” جب بھی چاہیں ایک نئی صورت بنالیتے ہیں لوگ “۔ عظیم کامیڈین کا دل ریزہ ریزہ ہوچکا تھا۔
کبھی کبھار کوئی ٹی وی چینل یہ خبر شامل کرلیتا کہ اسٹیج کی دنیا کے ہرفن مولا کامیڈین ببوبرال کی صحت میں بہتری آنے لگی۔ پرستاروں سے دعائے صحت کی اپیل کی ہے۔ ایسے میں لاغر، کمزور اور نحیف ببو برال کی بستر علالت سے ایک ہنستی مسکراتی تصویر تو نشرکی جاتی لیکن اس ایک تصویر کے اندر چھپے ان گنت درد اور تکلیف کی جھلک نمایاں رہتی۔
ابھی ببو برال نے عمر کی پچاس بہاریں بھی نہیں دیکھی تھیں کہ پہلے جگر کےکینسر اور پھر گردوں اور شوگر کے امراض سے جنگ لڑنے لگے۔ اس علالت کے باوجود جہاں انہیں صحت اور وقت اجازت دیتا وہ کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر اپنے فن کا اظہار کرنے کے لیے ہر دم تیار رہتے۔
یہ بھی اپنی جگہ منفرد اعزاز ہی ہوگا کہ ایک ایسا فنکار جو کئی بیماریوں میں گھرا ہوا تھا جب جب پرستاروں کے لیے منظر عام پر آتا تو طنز و مزاح ایسے کرتا کہ ہنستی مسکراتی آنکھوں سے آنسو چھلک جاتے۔ پل بھر کو ببو برال بھی اپنی بیماریاں بھول بیٹھتے اور بچوں کی طرح داد ملنے پرچہرے کی خوشی اور مسرت دیکھنے سے تعلق رکھتی۔
بھلا کوئی تصور کرسکتا ہے کہ گوجرانوالہ کے چھوٹے سے قصبے گکھڑ منڈی میں جنم لینے والا یہ باہمت نوجوان اپنے اصل نام ایوب اختر کی بجائے ببو برال سے کامیڈی کے افق پر جھلمائے گا۔ حس مزاح اور برجستہ مکالمہ بازی ایسی کہ ایک جملے پر آپ مسکراتے تو اگلا جملہ اس سے زیادہ کھکھلانے پر مجبور کردیتا۔
ببوبرال ابتدا سے حاضرجوابی اور شگوفہ بیانی میں اپنی مثال آپ تھے۔ 1982 میں گوجرانوالہ سے ہی اپنے سفر کی شروعات کی لیکن پھر احساس ہوا کہ اگر اپنے شہر تک محدود رہیں گے تو ممکن ہے کہ شہرت اور کامیابی سے کوسوں دور رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قسمت اور نام بنانے کے لیے لاہور کا رخ کیا۔ خوش نصیبی یہ ٹھہری کہ جمیل فخری سے ملاقات ہوگئی۔ جنہیں اس نوجوان کی برجستگی بھاگئی جبھی انہوں نے سب سے پہلے ببو برال کو اسٹیج پر موقع دیا۔
دیکھا جائے تو ببو برال نے اس ملنے والے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اسٹیج ڈراموں میں مستانہ، امان اللہ، خالد عباس ڈار اور سہیل احمد کی موجودگی کے باوجود اپنی جگہ خودبنائی۔ اسٹیج ڈراموں میں تماشائی ان لمحات کا بے چینی اور بے صبری سے انتظار کرتے جب ببو برال کی انٹری ہوتی۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھتا۔ ان کے ایک ایک جملے پر قہقہے ہی قہقہے ملتے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط بھی نہ ہوگا کہ ببو برال تن تنہا اسٹیج ڈراموں کا بوجھ اٹھانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ لیکن ان کی جوڑی مستانہ کے ساتھ خوب جچی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیشتر ڈراموں میں مستانہ کی موجودگی ہوتی تو دونوں کے درمیان ایسی برجستہ جملے بازی ہوتی کہ گھنٹوں ہال میں بس تالیاں ہی تالیاں بج رہی ہوتیں۔
یہ ہنرببو برال میں تھا کہ وہ ایک بہترین کامیڈین ہی نہیں گلوکار، ہدایتکار اور لکھاری بھی تھے۔
جس طرح عمر شریف کی زندگی میں ” بکرا قسطوں پے” سنگ میل بن گیا تھا۔ اسی طرح ببو برال کے لیے ” شرطیہ مٹھے ” وہ اسٹیج ڈرامہ ثابت ہوا جس نے ان کے کیرئیر کو ایک نئی شناخت دی۔
صرف یہی ڈرامہ کیا ان کا ” ٹوپی ڈرامہ، بیوی نمبر ون اور عاشقوں غم نہ کرنا” نے جیسے ان کی مقبولیت میں اور اضافہ کردیا۔ یہی وجہ ہے اسٹیج ڈراموں کی شہرت انہیں فلموں تک کھینچ لائی۔ کوئی پچاس کے قریب فلمیں ہیں جن میں ببو برال بطور کامیڈین شامل ہوئے۔ ان میں مجھے چاند چاہیے، نو پیسہ نو پرابلم، کڑیوں کو ڈالے دانا، نکی جئی ہاں سمیت کئی ہٹ فلمیں شامل ہیں۔ ان کی آخری فلم 2010 میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم” چناں سچی مچی” تھی۔
ہنستا مسکراتا یہ فن کار پاکستان ہی نہیں سرحد کے اس پار یعنی بھارت میں ہی مقبول رہا۔ جہاں کے کئی کامیڈی اسٹیج شوز میں انہوں نے اپنے فن کا اظہار کیا۔ ببوبرال نے بطور گلوکار اپنی آڈیو البم ’’بیتیاں رتاں‘‘ بھی ریلیز کی۔ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ ہرفن مولا فنکار ہیں۔
دیکھا جائے تو ببو برال کا فنی سفر تین دہائیوں پر مبنی ہے۔ انہوں نے 30 سال تک سینکڑوں اسٹیج ڈراموں اور متعدد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اپنے غم اور دکھ درد کو بھلا کر ہر چہرے پر مسکان لانے کا سبب بنے۔ ببو برال کی خوبی یہ بھی تھی کہ اسٹیج پر قوالی بھی بہت اچھے انداز میں پیش کرتے اور اگر ان کے ساتھ انور علی، شوکی خان اور دوسرے فنکار ہوتے تو جیسے اس قوال میں رنگ بھر آتا۔
ببو برال کا یہ فنی سفر جاری تھا کہ 2009 کے آس پاس وہ کئی بیماریوں کا شکار ہونے لگے۔ شوگر ہوئی پھر گردے کے عارضے میں مبتلا ہوئے۔ اور کینسر بھی حملہ آور ہوا۔ ان بیماریوں نے اس ہنس مکھ فنکار کو جیسے مرجھا دیا۔ ڈاکٹروں نے گینگرین کی وجہ سے اُن کے بائیں پاؤں کی تین انگلیاں آپریشن کے ذریعے کاٹ دیں تھیں۔ جس کی وجہ سے انہیں چلنے پھرنے میں مشکل آتی۔ ڈاکٹروں نے اُن کی ٹانگ کاٹنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن غنودگی کی وجہ سے یہ آپریشن نہیں کیا جا سکا۔
ببو برال کے علاج کے لیے حکومتی سطح پر اعلانات تو بہت ہوئے لیکن اپنے اخباری انٹرویو میں انہوں نے بتادیا کہ یہ صرف ‘اعلانات’ کی حد تک محدود تھے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ فنکاروں کے حلقہ احباب نے بھی ان سے آنکھیں پھیر لیں۔ روایتی بے حسی کی وجہ سے ببو برال 16 اپریل 2011 کو خاموشی سے اس دنیا سے منہ موڑ گئے۔
یہ المناک داستان کا اختتام نہیں بلکہ ببو برال کی موت کے 8 سال بعد بعد ان کی صاحبزادی مریم پر بھی دکھوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ جنہوں نے لاہور کے مقامی تھانے میں یہ رپورٹ درج کرائی کہ شوہر ساقی خان مار پیٹ کرتا ہے، تشدد کے باعث وہ اپنا نومولود بیٹا بھی گنوا بیٹھی ہےجبکہ تشدد سے چہرے اور بازو پر نشانات بھی آئے ہیں۔ اور پھر رواں برس ببو برال کے بیٹے نبیل برال نے مالی امداد کے لیے حکومت سے اپیل کردی۔ مرحوم اداکار ببو برال کے بیٹے نبیل برال کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ جس میں نبیل برال کا ایک بازو نہیں اور دونوں ٹانگیں بھی زخمی ہیں۔ نبیل کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر کے کمانے والے اکلوتے مرد ہیں۔ والدہ اور بہنیں بھی ہیں۔ حکومتی اتھارٹی، این جی او یا کوئی اور مدد کرے۔ کیونکہ ان کا ایک بازو حادثے میں کٹ گیا تھا توہ وہ معزوری کا سامنا کررہے ہیں۔ دونوں ٹانگیں جلی ہوئی ہیں۔ چل پھر بھی نہیں سکتے۔ اب اسے بےحسی ہی کہیے کہ اب تک نبیل برال کی مدد کے لیے کسی نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
ببوبرال ساری عمر خود بھی دکھوں اور بیماریوں سے گھمسان کی جنگ لڑتے رہے اور اب ان کی اولاد بھی پریشانی اور مالی دشواریوں سے دوچار ہے۔ کامیڈین ببو برال کو گزرے کم و بیش تیرہ سال بیت گئے ہیں اور ان برسوں میں کوئی ایسا فنکار نہیں جو ان کا متبادل ثابت ہوسکے۔ آخر کسی فنکار کا کوئی متبادل ہو سکتا ہے، بھلا؟