چند برسوں سے پاکستانی نوجوانوں میں دوسرے ممالک جانے کے رجحان میں کافی تیزی دیکھی گئی ہے، ان میں اب خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں پلی بڑھی خواتین مغربی ممالک کی خواتین سے کافی زیادہ مختلف ہوتی ہیں۔ خاص طور پر وہ خواتین جو پہلی بار ملک سے باہر جاتی ہیں، انہیں بلکل علم نہیں ہوتا کہ وہاں کی زندگی کیسی ہے، اور ان کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شروع میں تقریباً سب کو ہی بہت سے چلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے زیادہ تر خواتین جہاں گھبرا جاتی ہیں، وہیں ان ساری مشکلات کا دلیری سے مقابلہ کرکے بہت شاندار مستقبل بھی بنا لیتی ہیں۔ ایسے کون سے مسائل ہیں جو پاکستانی خواتین کو شروعات میں جھیلنا پڑتے ہیں؟ اسی حوالے سے جاننے کے لیے وی نیوز نے کچھ اوورسیز پاکستانی خواتین سے بات کی ہے اور ان کی مختلف مشکلات اور تجربے سے آگاہی حاصل کی ہے۔
لندن میں زندگی باقی یورپین ممالک سے کافی بہتر ہے، صائمہ عارف
صائمہ عارف 3 بچوں کی ماں ہیں اور یونیورسٹی آف مانچیسٹر میں ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں، انہوں خواتین کی مشکلات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لندن میں زندگی باقی یورپین ممالک سے کافی بہتر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میں اپنی فیملی سمیت لندن آئی تھی، پاکستانی معاشرے میں مرد گھر کا کوئی بھی کام نہیں کرتے، اس لیے خواتین کے لیے سب سے مشکل یہ ہوتا ہے کہ انہیں نوکری کرنے کے ساتھ گھر کی ذمہ داریاں بھی سنبھالنی پڑتی ہیں جو کہ عورت کی زندگی کو زیادہ چیلنچنگ بنا دیتی ہیں۔
آفس میں سب اسی ملک کے لوگ ہوتے ہیں
انہوں نے بتایا کہ جب آپ نئے آئے ہوتے ہیں اور آپ کے آفس میں چند غیر ملکیوں کے علاوہ سب اسی ملک کے لوگ ہوتے ہیں، جن کا کلچر، تہوار، پسند نہ پسند ہر چیز آپ سے مختلف ہوتی ہے۔
’ان کے طور طریقے، میوزک سب کچھ مختلف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات آپ کو اپنا آپ عجیب لگتا ہے کیونکہ آپ ان کے ساتھ اس طرح سے گھل مل نہیں سکتے، ان کی گیمز، ان کے ساتھ میوزک اور دیگر چیزوں میں حصہ نہیں لے سکتے ہیں‘۔
وائٹ کالر جابز کے لیے مقابلہ بہت سخت ہوتا ہے
آفس کی زندگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہاں وائٹ کالر جابز کے لیے مقابلہ بہت سخت ہوتا ہے، اور ہر ملک کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ایسی جابز کے لیے وہ اپنے ہی ملک کے لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
تیسری دُنیا کے لوگوں کے لیے یورپ کے ٹیلنٹ کو شکست دینا آسان نہیں
ان کا کہنا تھا کہ آپ تیسری دُنیا کے ملک سے تعلیم حاصل کرکے آئے ہوتے ہو جس کی وجہ سے یہاں کے ٹیلنٹ کو شکست دینا آسان نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ اپنی جگہ بنانے کے لیے ان سے زیادہ محنت کرکے دکھانا پڑتی ہے۔
’پاکستان میں دفتروں میں بہت آرام دہ ماحول ہوتا ہے، یہاں ورک لوڈ کے ساتھ دفتر کے رولز کو بھی سختی سے فالو کرنا پڑتا ہے‘۔
پاکستانی خواتین کو مردوں سے مصافحہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا شروع میں ہم اس کلچر کے عادی نہیں ہوتے اور ان کے کلچر میں مردوں کا مصافحہ کرنا بہت عام بات ہوتی ہے، جو ہم پاکستانی خواتین کے لیے کافی مشکل کا سبب بنتا ہے۔
یورپ میں چھوٹے کام کو بھی بھرپور عزت دی جاتی ہے
صائمہ عارف نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ جیسے جیسے وقت کے ساتھ چیزیں بہتر ہوتی جاتی ہیں، پھر ہم ان سب چیزوں کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہاں پر آپ کے چھوٹے سے چھوٹے کام کو بھی بہت عزت دی جاتی ہے، یہاں کسی کام کو چھوٹا نہیں سمجھا جاتا، آپ کی محنت کو نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ آپ کو اس محنت کا صلہ بھی دیا جاتا ہے۔ جنس کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جاتی اور نہ ہی آپ کو دفتروں میں کسی قسم کی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عمان میں کلچرل شاک لگا، ہدا نور
عمان میں مقیم 25 سالہ ہدا نور اسکول ٹیچر ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اپنے وطن سے دور مسائل تو بہت سے ہوتے ہیں، جب عمان آئی تو سب سے پہلے ’کلچرل شاک‘ لگا۔ کیونکہ یہاں پر یا تو فحش لباس پہنے گھوم رہے ہوتے ہیں یا پھر برقع پہن کر گھومتے ہیں مطلب کوئی درمیان کا راستہ نہیں ہوتا، جو کافی حیران کن تھا۔
بیرون ملک پاکستانی خواتین کے ساتھ تفریق کی جاتی ہے
انہوں نے کہا کہ یہاں پر ملک کی بنیاد پر تفریق بہت زیادہ ہے، ’جیسا کہ میں ایک اسکول ٹیچر ہوں اور میرے علاوہ اس اسکول میں اور بھی معلمات غیر ملکی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم 3 ٹیچرز 3 مختلف ممالک سے تعلق رکھتی ہیں اور ایک ہی جماعت کو ایک ہی مضمون پڑھا رہی ہیں، تینوں کی تنخواہ میں فرق ہوگا‘۔
تنخواہ ملک کے حساب سے دی جاتی ہے
انہوں نے بتایا کہ یہ تنخواہ آپ کو آپ کے ملک کے حساب سے دی جاتی ہے، جیسا کہ مجھے اگر 300 ریال مل رہے ہیں تو فلپائن سے تعلق رکھنے والی ٹیچر کو اسی کتاب کو پڑھانے کے 500 اور عمانی ٹیچر کو 700 دیے جاتے ہیں، اس طرح تنخواہوں کے حوالے سے بہت تفریق کی جاتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہاں کی بہت اچھی باتیں یہ ہیں کہ ملک میں کرائم ریٹ بالکل زیرو ہے، یہاں آپ کو غلطی سے کوئی ہراساں کرنے کی کوشش بھی کرنا چاہے تو صرف موبائل نکالنے کی دیر ہوتی ہے کہ سب بھاگ جاتے ہیں۔
عمان میں قوانین سب کے لیے یکساں ہیں
یہاں کسی بھی وقت لڑکی باہر جاسکتی ہے، اتنی سیکیورٹی اور سخت قوانین ہیں جو کہ سب کے لیے برابر ہیں جب کہ پاکستان میں بد قسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہے۔
مرد اور خواتین دونوں ملازمت پیشہ ہوتے ہیں
گزشتہ 10 برس سے جرمنی کے شہر برلن میں مقیم حرا صدیقی نے وی نیوز کو بتایا کہ وہ شادی کرکے جرمنی آئی تھیں، مگر یہاں کے کلچر میں مرد اور خواتین دونوں کو ہی نوکری کرنا پڑتی ہے۔
یورپ سے حاصل کردہ ڈگری پر آسانی سے نوکری مل جاتی ہے
وہ کہتی ہیں کہ چند مہینے گزر جانے کے بعد انہوں نے اپنے لیے جب نوکری کی تلاش شروع کی تو سب سے پہلا مسئلہ جو پیش آیا وہ یہ تھا کہ ان کی تمام تعلیم پاکستان سے تھی۔ اس سب کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی تھیں کہ اگر آپ کے پاس کوئی ایک ڈگری بھی کسی بھی یورپین ملک سے حاصل کی ہوئی ہے تو آپ کے لیے وائٹ کالر جاب کے مواقع زیادہ بڑھ جاتے ہیں، اس کے علاوہ پوری دنیا کی طرح یہاں پر بھی زبان، رنگ اور ملک کی بنیاد پر تفریق کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا چونکہ وہ یہاں ایک امریکن کمپنی کے ساتھ کام کرتی ہیں تو وہ اسٹیٹس جہاں کی قومی زبان انگریزی ہے یا پھر جو افراد امریکیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں ان کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ اچھی انگریزی بولنا اور لکھنا نہایت اہم ہے۔ کیونکہ اگر آپ کے بولنے اور لکھنے میں کوئی غلطی ہو جائے تو اس چیز کو بہت برا سمجھا جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے شوہر پہلے سے یہاں موجود تھے اس لیے ان کو اس طرح کی مشکلات نہیں جھیلنا پڑیں جیسے خواتین کو برداشت کرنا پڑتی ہیں۔
خواتین کو حلال کھانا ڈھونڈنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے
ان کا کہنا تھا کہ وہ کچھ خواتین کو جانتی ہیں، جو پاکستان سے آئیں تو انہیں سب سے زیادہ رہائش اور اس کے بعد حلال کھانا ڈھونڈنے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یہ سب جاننے میں وقت لگتا ہے اور اس وقت یہ مشکلات بھی بہت بڑی لگ رہی ہوتی ہیں‘۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام پاکستانی خواتین جو دوسرے ممالک جانا چاہتی ہیں خاص طور پر وہ ممالک جن کی اپنی لوکل لینگویج ہے وہاں کی زبان تھوڑی بہت سیکھ کر آئیں۔
انہوں نے بتایا کہ اتنی زبان آنی چاہیے کہ آپ اپنی بات دوسروں تک پہنچا سکیں ورنہ لوکل اسٹورز اور ریسٹورنٹس میں جابز ملنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
شروع میں تو سب کو بلیو کالر جابز ہی کرنا پڑتی ہیں
ان کا کہنا تھا کہ شروع میں تو سب کو بلیو کالر جابز ہی کرنا پڑتی ہیں اس لیے کم از کم بات چیت کرنے تک زبان آنی چاہیے۔ اس کے علاوہ اس ملک اور وہ شہر جہاں آپ کو رہنا ہے وہاں کے بارے میں سب سے پہلے خوب ریسرچ کریں اور تمام ضروری چیزیں جان کر ہی اس ملک کا رخ کریں۔