پروپیگنڈا کیسے کرنا ہے، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کیسے ثابت کرنا ہے یہ پی ٹی آئی اور عمران خان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ کسی کی سچی بیماری کو جھوٹا بنانا ہو، وینٹی لیٹر پر پڑی اپنے آخری سانس لینے والی سابق خاتون اوّل کو سیاسی ہمدردی حاصل کرنے کا ڈرامہ قرار دینا ہو، اسپتال میں زبردستی گھس کر یہ دیکھنا ہو کہ کہیں وہ ڈرامہ تو نہیں کررہیں۔ پی ٹی آئی نے ہر وہ کام کیا ہے کہ مہذب معاشرے میں ایک دشمن بھی ایسا نہیں سوچ سکتا۔ بالآخر ان کی وفات پر ان کو یقین آیا کہ وہ واقعی میں بیمار تھیں۔ یہ وہ تمام کام ہیں جو ماضی میں پی ٹی آئی کے سپورٹرز نے اور بعض لیڈران نے فخریہ انداز میں کیا۔اور اس پر کبھی ندامت کا اظہار تک نہیں کیا۔
اسی طرح سابق وزیراعظم نواز شریف دوران قید بیمار ہوئے تو عمران خان سے لیکر پی ٹی آئی کے ایک عام سپورٹر تک نے اسے جیل سے باہر جانے کا ایک بہانہ قرار دیا۔ اس وقت کے وزیراعظم کو یقین نہیں تھا کہ آیا وہ واقعی بیمار ہیں یا نہیں اس معاملے کو کنفرم کرنے کے لیے عمران خان نے اپنی پسند کا میڈیکل پینل بھیجا تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ کہیں وہ ڈرامہ تو نہیں کررہا۔
آج جب سابق خاتون اوّل بشری بی بی کی میڈیکل رپورٹ دیکھی تو مجھے 2019 کا وہ دور یاد آگیا جب سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیماری پر پی ٹی آئی کی طرف سے طرح طرح کا پروپیگنڈا کیا گیا تھا اور اس بیماری کو ڈرامہ قرار دیا گیا تھا۔ نواز شریف کو تشخیص کردہ پلیٹ لیٹس کم ہونے کی بیماری کو ایک مذاق بنایا گیا۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ انسانوں کے بنائے گئے نظام کیساتھ ساتھ قدرت کا اپنا بھی ایک نظام ہے۔ وقت ایک جیسا نہیں رہتا اور ہر بنی نوع انسان کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ مکافات عمل ایک حقیقت ہے جیسا کروگے ویسا بھرو گے۔
پچھلے کچھ ہفتوں سے ملک بھر کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر بشری بی بی کی بیماری کا خوب چرچہ کیا گیا اور اس کا آغاز تو سابق خاتون اوّل نے یہ الزام لگا کر کیا کہ ان کی خوراک میں ہارپک کے تین قطرے ملائے گئے۔ بشری بی بی نے دعوی کیا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور ان کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ٹوائلٹ کلینر ہارپک کے ذریعے ان کو سلو پوازننگ کی جارہی ہے۔ اس دعوے کے بعد عمران خان نے بھی میڈیا کو بیان دیا کہ اگر بشری بی بی کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ دار موجودہ فوجی اسٹیبلشمنٹ ہوگی۔
عمران خان کے اس بیان کے بعد تو جیسے پورے میڈیا نے اس کو ایک سنجیدہ ٹاپک کے طور پر لیا اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ بشری بی بی اور عمران خان کے ذاتی معالج سابق مشیر صحت ڈاکٹر فیصل نے ان کا معائنہ کیا اور ان کی میڈیکل رپورٹس چیک کی۔ لیکن اس پروپیگنڈا کے برعکس بشری بی بی کے ذاتی معالج نے ان کو زہر دیے جانے کے امکان کو رد کردیا اور اس بات کی تردید کی کہ ان کو کوئی سلو پوائزننگ کی جارہی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈاکٹر فیصل کے اس بیان کے بعد عمران خان، بشری بی بی اور ان کے سپورٹرز کو اس جھوٹے بیان کے بعد معافی مانگنی چاہیے تھی لیکن الٹا اس پروپیگنڈا کو جاری رکھا گیا۔ کل ایک بار پھر ایک انڈیپنڈنٹ میڈیکل بورڈ کے معائنے اور بشری بی بی کے باقاعدہ میڈیکل ٹیسٹ کے نتائج کے بعد ایک بار پھر واضح ہوگیا کہ بشری بی بی کو کوئی زہر وغیرہ نہیں دیا گیا بلکہ ان کو گیسٹرو کا عارضہ لاحق ہے اور ڈاکٹرز نے ان کو کھانے میں پرہیز اور چکنی و مصالحہ دار چیزیں کھانے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
بشری بی بی کے ذاتی ڈاکٹرز اور انڈیپنڈنٹ میڈیکل پینل اور اس کی رپورٹس سے ایک بار پھر سابق خاتون اوّل کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی تو نفی ہوگئی لیکن اس جھوٹے اور مہلک پروپیگنڈا پر کسی نے معافی نہیں مانگی۔ حالانکہ پی ٹی آئی کے سینئیر رہنماؤں اور خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر صحت تک نے بشری بی بی کی بیماری کو ایک سنگین معاملہ قرار دیا تھا۔ کیا وہ صوبائی وزرا اور سینئیر پارٹی اراکین معافی مانگیں گے؟
زہر دیے جانے کے یہ الزامات تو جھوٹے ثابت ہوگئے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر پروپیگنڈا کیا کیوں گیا اور اس کے پیچھے کیا عوامل کار فرما ہیں؟ کیونکہ مخالفین کی تو حقیقی بیماریوں کا مذاق تک اڑایا گیا اور اپنی جھوٹی بیماریوں پر اتنا واویلا کیوں؟ بات دراصل اتنی سی ہے کہ عمران خان میڈیا کو استعمال کرنا جانتا ہے اور ہر وقت میڈیا کی شہ سرخیوں میں کیسے رہا جاتا ہے اسکا فن بھی جانتا ہے۔ بشری بی بی کی بیماری کا بہانہ میڈیا پر ان کو اور ان کی جماعت کو بھرپور طور پر ان رہنے کا فن وہ جانتا ہے اور یہ سب میڈیا سٹنٹ اور پبلسٹی سے زیادہ کچھ نہیں۔