یادش بخیر، جب اک عشرہ پہلے میں لاہور میں وارد ہوا تو اکثر شامیں دوستوں کے ساتھ کیفے اور ریستورانوں کی خاک چھانتے گزرتیں۔ دوست بھی خوش خوراک اور خوش ذائقہ ملے تھے۔ جونہی کسی نئے ریستوران کے کھلنے کی خبر ملتی، ہم تین چار دوستوں کا ٹولہ وہاں پہنچ جاتا۔ کھانے کےذائقے اور معیار کا تجزیہ ہمارے چٹورے دوست روحیل اشرف 2 الفاظ میں نچوڑ کر رکھ دیتے تھے۔ اگر کھانا ان کے ‘ٹیسٹ بڈز’ کو متاثر کر پاتا تو ‘انٹرسٹنگ’ قرار پاتا، نہیں تو ‘فارغ’۔
اچھے کھانے توبے شمار مل جاتے ہیں مگر اچھی چائے کے لیے بہت سے ریستوران کی خاک چھان ماری مجال ہے جو کہیں ڈھنگ کی چائے ملی ہو۔ انہی دنوں یہ خیال آتا تھا کہ اگر سائنسی طریقہ کار کو استعمال میں لاتے ہوئے بہترین چائے کی ترکیب معلوم کر لی جائے تو کیا ہی بات ہے۔ ویسے مشہور زمانہ سیریز ‘بریکنگ بیڈ’ میں بھی تو کیمیاء دان سائنسی اصولوں پر ہی ایک بہترین کافی تیار کرتا ہے۔
یہ قصہ یوں تازہ ہوا کہ 24 جنوری 2024 کو پروفیسر میشال فرینکل کی ایک کتاب رائل سوسائٹی آف کیمسٹری نے شائع کی۔ جو بہترین چائے کی پیالی پر کی جانے والی سائنسی تحقیق کا پرمغز تاریخی احاطہ کرتی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں چائے میں معمولی مقدار میں نمک ڈالنے کی بھی تجویز دی ہے۔ ان کے بقول اس طرح چائے کی ‘تلخی’ میں کمی لا کر ذائقے میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ ان کی اس تجویز نے انگلینڈ میں صحیح معنوں میں چائے کی پیالی میں طوفان برپا کر دیا ہے۔ ‘گڈ مارننگ بریٹین’ نے تو اسے ایک جرم سے تعبیر کیا۔
سوشل میڈیا پر جاری بحث میں انگلینڈ میں امریکی قونصلیٹ بھی ایک دلچسپ بیان کے ذریعے شامل ہو گیا ہے کہ، “بہترین چائے پر فرینکل کا بیان امریکہ اور انگلینڈ کے تعلقات گرم پانیوں میں لے آیا ہے۔ یہ تجویز دونوں ممالک کے بیچ تعلقات کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ اور چائے میں نمک ڈالنے کی تجویز ہرگز امریکی پالیسی نہیں ہے۔ امریکی قونصلیٹ انگلستانی عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور ہم چائے تیار کرنے کے صحیح طریقے پر عمل جاری رکھیں گے، یعنی اسے مائیکرو ویو کر کے!”۔ یہ ساری بحث ایک خوشگوار اور مزاحیہ انداز میں شروع ہو کر ختم ہو گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چائے کی سائنس پر سب سے پہلا ریسرچ پیپر 1885 میں شائع ہوا جس میں ویلہل مینا گرین نے چائے کشید کرنے کی باریکیوں پر سائنسی بحث کی۔ گرین کے مطابق چائے میں موجود کیفین 100 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر 5 منٹ سے کم دورانیے میں کشید ہو جاتی ہے جبکہ بڑے مالیکیول (پولیمرز) جیسا کہ کیٹی چینزکو زیادہ وقت اور درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔ کیٹی چینز یا پولی فینولز وہ مادے ہیں جو چائے کو اینٹی آکسیڈینٹ خصوصیات عطا کرتے ہیں۔ یہ ایسے مادے ہیں جو جسم میں پیدا ہونے والے زہریلے مادوں (فری ریڈیکلز) کا خاتمہ کر کے سرطان جیسی بیماریوں سے بچاتے ہیں۔
1977 میں لانگ اور اس کے ساتھیوں نے جدید سائنسی آلات سے تقریباً ویسے ہی نتائج اخذ کیے جو ایک صدی قبل گرین اپنے مقالے میں پیش کر چکی ہیں۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ 1977 تک چائے کشید کرنے کی حرکیات یعنی کیفین اور دیگر مرکبات کے پانی میں اتر آنے کا دورانیہ اور اس پر مختلف عوامل مثلاً درجہ حرارت کا اثر پر کوئی مطالعہ موجود نہیں تھا۔
1946 میں جارج اورویل نے ایک مضمون لکھا جس میں بہترین چائے بنانے کی 11 نکاتی سفارشات پیش کیں۔ انہی سفارشات میں معمولی ردوبدل کے بعد رائل سوسائٹی آف کیمسٹری نے 2003 میں ایک پریس ریلیز شائع کی۔ جس کے مطابق چائے بنانے کے لیے بہترین پانی نلکے کا ہے اگر اس میں حل شدہ نمکیات کی مقدار زیادہ نہ ہو۔ منرل واٹر صحیح نہیں کیوں کہ اس میں موجود معدنیات، چائے میں موجود پولی فینولز کے ساتھ تعامل کرکے ذائقے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ چائے کو دوبارہ گرم کرنے پرپیالی کی سطح پر ابھرنے والا ‘اسکم’ اسی تعامل کا نتیجہ ہے۔ پانی کو ایک کیتلی میں ابال لیا جائے۔
بہترین چائے چینی کے برتنوں میں بنتی ہے اور بہتر ذائقے کے لیے پیالی کو گرم کرنا مفید ہے۔ اس مقصد کے لیے پیالی میں ایک چوتھائی حصہ پانی ڈال کر ایک منٹ مائیکرو ویو کرنا کافی ہوگا۔ اس پانی میں ایک چمچ چائے کا ڈالیں (جارج اورویل ایک کپ پانی میں 6 چمچ کی سفارش کرتا ہے جوبہت زیادہ ہے)۔ کھلی چائے ٹی بیگ کی نسبت بہتر ہے۔ اس کے بعد اس میں ابلتا ہوا پانی ڈال کر 3 منٹ کے لیے رکھ دیں۔ اس دوران پتی میں موجود کیفین اور دیگر مرکبات پانی میں حل ہو جائیں گے۔ اس دوران چائے کو چمچ سے ہلانا مفید ہے۔
اگر آپ چائے میں دودھ ڈالنے کے شوقین ہیں توڈبے کے دودھ کی بجائے تازہ مگر ٹھنڈا دودھ سب سے پہلے پیالی میں ڈالیں، اس کے بعد پتی اور پھر ابلا ہوا پانی۔ ابلے ہوئے پانی میں دودھ ڈالنے پر اس میں موجود پروٹینز اپنی شناخت کھو دیتی ہیں اور یوں چائے کے ذائقے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ حسب ذائقہ چینی شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جارج اورویل اس کے سخت خلاف تھے۔ رائل سوسائٹی کے مطابق چائے کا بہترین درجہ حرارت 60 سے 65 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اچھی چائے ہمیشہ کم مقدارمیں بنتی ہے۔ آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہو گا کہ درجن سے زائد افراد کے لیے تیار کی گئی چائے برائے نام چائے رہ جاتی ہے۔
پروفیسر میشال فرینکل نے اپنی کتاب میں اپنی ذاتی تحقیق کی بنیاد پر مزید کچھ سفارشات بھی شامل کی ہیں۔ مثلاً ان کےمطابق چائے کی پتی کو دوبارہ استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں کیفین کی مقدار 5 فیصد سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ ان کے مطابق ٹی بیگ کی شکل کا بھی چائے کے ذائقے اور کیفین کی کشیدگی پر کوئی اثر نہیں۔ یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل ایکس پر ایک بحث چھڑی تھی کہ “کیا ٹی بیگ کی شکل کا چائے کے ذائقے پر کوئی اثر ہوتا ہے؟”
پروفیس فرینکل کے مطابق چائے کی کیمیاء طالب علموں کو اپنے مشاہدات اور کیمیائی علم کے درمیان تعلق بنانے میں اہم کردار ادار کرتی ہے۔ زمانہ طالب علمی میں ان کے استاد نے جب پوچھا کہ، “قہوے میں لیموں کے قطرے ڈالنے سے اس کا رنگ کیوں مدھم پڑ جاتا ہے؟” تو جواب دیتے وقت انھیں پہلی بار ایک اصل کیمیاء دان ہونے کا احساس ہوا۔
پروفیسر میشال فرینکل اور دیگر ماہرین کی تحقیقات نے نہ صرف چائے کے ذائقے بلکہ اس کی تیاری کے عمل کو بھی ایک نئی جہت دی ہے۔ یہ بلاگ لکھتے ہوئے ذہن میں آیا ہے کہ ہمارے ہاں ڈھابے کی کڑک دیسی چائے کو پکانے اور ایک بلندی سے پھینٹنے کے پیچھے کیا سائنس ہے۔