طالبان سے منسلک مقتول رہنما کوئٹہ میں کیا کر رہے تھے؟

منگل 23 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ ہفتے جمعرات کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے نواحی علاقے نواں کلی میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے امام مسجد کو قتل کردیا ، بعد میں جن کی شناخت محمد عمر جان اخوند زادہ کے نام سے ہوئی، اس خبر نے تہلکہ اس وقت مچایا جب سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ترجمان امارات اسلامیہ افغانستان نے اپنا مذمتی بیان جاری کیا۔

ترجمان افغان حکومت ذبیح اللہ مجاہد نے عمر جان اخوندزادہ کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسے افغانستان کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا، 50 سالہ عمر جان اخونزادہ کو گزشتہ روز افغانستان کے صوبے زابل میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کوئٹہ کے زرغون آباد تھانہ کے ایس ایچ او نعمت خان نے بتایا کہ واقع کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا گیا ہے جبکہ معاملے کی مزید تحقیقات کی جارہی ہیں۔

ایس ایچ او نعمت خان نے مزید بتایا کہ محمد عمر اخونزادہ پاکستان کے شناختی کارڈ ہولڈر تھے جو گزشتہ 10 سے 15 سال سے نواں کلی میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر تھے، وہ عید کی چھٹیوں پر افغانستان سے پاکستان آئے تھے، تاہم 19 تاریخ کو نامعلوم افراد نے انہیں فائرنگ کا نشانہ بناکر قتل کردیا۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے زرغون آباد کے رہائشی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ عمر جان اخونزادہ طالبان حکومت کے لیے قندھار میں آڈٹ کمیٹی کے رکن اور دینی عالم کے فرائض سر انجام دیتے تھے، ان کے قتل کے بعد نواں کلی کی اسی مسجد جہاں وہ امام تھے وہاں ان کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی بھی رکھی گئی تھی۔

’محمد عمر جان اخونزادہ کے والد 4 دہائیوں قبل افغانستان سے پاکستان آئے تھے، ان کے والد ملا بیان بھی مسجد میں پیش امام تھے جبکہ محمد عمر اخونزادہ کی ملکیت میں ایک گھر بھی ہے جہاں ان کے اہل خانہ رہائش پذیر ہیں۔‘

ذرائع کے مطابق 2021 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد عمر اخونزادہ افغانستان چلے گئے تاہم علاج کی غرض سے وہ کوئٹہ آیا کرتے تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp