پاکستان کے کسانوں کو مین اسٹریم میڈیا سے شکایت ہے کہ اس نے حالیہ گندم کے بحران پر اس کی آواز میں آواز نہیں ملائی۔ حکومت گندم خرید نہیں رہی اور مارکیٹ میں آڑھتی من پسند نرخ لگا کر کسان کا استحصال کررہا ہے۔ البتہ سوشل میڈیا پر لوگ نہ صرف بھرپور آواز اٹھا رہے ہیں بلکہ عوام حکومت سے یہ مطالبہ بھی کررہی ہے کہ کسانوں کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے ان کا پرسان حال کیا جائے۔ میں خود کیونکہ ایک کسان گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں تو مجھے کسانوں کے حالات کا اندازہ ہے کہ وہ اس وقت کس کرب سے گزر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ گندم کا بحران پیدا کیسے ہوا؟ اس بحران کی ذمہ دار کیا صوبائی حکومتیں ہیں یا وفاقی حکومت؟ گندم کے اس بحران میں نگراں حکومت کا کیا کردار ہے؟ مارکیٹ کیسے کسان کا استحصال کررہی ہے؟ اور سب سے اہم کہ اس بحران سے کیسے حکومت کسانوں کو نکال سکتی ہے اور کیسے ان کا ازالہ کیا جاسکتا ہے؟ ان تمام سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے میں نے مختلف حکومتی عہدیداروں سے بات چیت کی تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ آخر یہ بحران پیدا کیسے ہوا؟
گندم کے بحران کی سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ تمام صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کے ادارے پاسکو نے اس سال گندم کی خریداری کا ٹارگٹ پچھلے سالوں کی نسبت کم کردیا ہے۔ پچھلے سال پنجاب حکومت کا صوبے بھر سے گندم خریدنے کا ٹارگٹ 4 کروڑ 50 لاکھ بوری (100کلو) تھا۔ اسی طرح پاسکو کا ٹارگٹ ایک کروڑ 89 لاکھ بوری گندم مقرر کیا گیا تھا۔ یہ ٹارگٹ تمام اعداد و شمار بشمول حالیہ اسٹاک اور ملکی ضروریات کو مدنظر رکھ کر مقرر کیے جاتے ہیں۔
اس سال امید یہ کی جارہی تھی کہ شاید گندم کی بمپر کراپ ہوگی اور پیداوار ضرورت سے کافی زیادہ ہوگی۔ پنجاب حکومت نے اس سال پچھلے سال کے برابر گندم خریدنے کے بجائے اس سال ٹارگٹ تقریباً 4 گنا کم کردیا اور تمام متعلقہ ضلعی اداروں کو صوبے بھر سے صرف 90 لاکھ بوری خریدنے کا ٹارگٹ دیا۔ کہاں ساڑھے 4 کروڑ بوری اور کہاں 90 لاکھ، صرف پنجاب حکومت نے ہی نہیں بلکہ باقی صوبائی حکومتوں اور پاسکو نے بھی اپنے ٹارگٹ کم کردیے۔ سرکاری حکام کے مطابق پاسکو کا اس سال گندم خریدنے کا ٹارگٹ ایک کروڑ 40 لاکھ بوری مقرر کیا گیا ہے۔
جب تمام صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے گندم خریدنے کا ٹارگٹ کم کیا تو اس سے مارکیٹ اور آڑھتی کو کھلی چھوٹ مل گئی کہ وہ اپنی من پسند کے نرخ لگا کر کسان سے گندم خریدے۔ کیونکہ گندم ہو یا کوئی اور اجناس ان کی قیمتوں کا تعلق بہت حد تک ڈیمانڈ اور سپلائی سے ہوتا ہے۔ جب ڈیمانڈ کم اور سپلائی زیادہ ہو تو زرعی اجناس کی قیمت خود بخود کم ہوجاتی ہے۔ مارکیٹ کے اسی اصول کے تحت اس وقت گندم کی فی من قیمت حکومتی نرخ سے کافی کم ہے۔
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ آخر گندم کا ٹارگٹ اس سال کیوں کم کیا گیا اور سرکاری نرخ کیوں نیچے آیا؟ اور کیا اس بحران کی ذمہ داری کسی حد تک نگراں حکومت پر بھی لاگو ہوتی ہے؟ مختلف سرکاری حکام سے بات چیت سے پتا چلا ہے کہ نگراں حکومت نے اپنے دور میں گندم درآمد کرنے کی منظوری دی۔ حالت یہ ہے کہ اس وقت بھی امپورٹڈ گندم پاکستان کی بندرگاہ پر موجود ہے۔ اس امپورٹ کے فیصلے کے براہِ راست متاثرین میں کسان سرفہرست ہے۔ کیونکہ حکومت نے سیزن کے قریب ہی باہر سے گندم منگوا لی، اب اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس سال کسانوں سے گندم کم خریدی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومتوں نے اس سال گندم خریداری کے ٹارگٹ کم کردیے۔
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ آخر حکومت نے گندم کی امدادی قیمت کیوں کم مقرر کی۔ تو اس کا جواب سرکاری حکام کے مطابق ایک تو یہ ہے کہ انہیں باہر سے کم قیمت پر گندم مل رہی ہے اور آئی ایم ایف کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ وافر مقدار میں گندم کے اسٹاک مہیا ہونے کی وجہ سے اس سال زیادہ گندم نہ خریدی جائے اور زیادہ پیسا اس میں پارک نہ کیا جائے۔ ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان کے بارڈر بند ہونے کی وجہ سے گندم وہاں یا کسی دوسرے ملک برآمد بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ ان کو پاکستان کی نسبت سستے داموں گندم دستیاب ہے۔
اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے گندم کے نئے سرکاری نرخ جاری کیے گئے۔ لیکن اس سب کے باوجود کیا کسانوں کے ان مسائل اور گندم کے بحران کا کوئی سدباب کیا جاسکتا ہے؟ اس کا بظاہر ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں فی الفور گندم خریداری کا ٹارگٹ بڑھا دیں۔ اس سے مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال ختم ہوگی۔ ڈیمانڈ بڑھنے سے مارکیٹ میں گندم کی قیمتوں میں استحکام آئے گا اور اس سے خود بخود گندم کے نرخ بہتر ہوں گے اور کسانوں کا استحصال بھی ختم ہوگا۔ اگر حکومت واقعی کسانوں کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے تو فوری طور پر ٹارگٹ بڑھا کر مارکیٹ میں بے یقینی کی صورتحال ختم کرے۔ ورنہ اگلے سال کسان گندم اگانے سے توبہ کریں گے اور پیداوار کم ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر گندم کا بحران پیدا ہو جائےگا۔