یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بلے بازی کی نسبت بولنگ، خاص طور پر فاسٹ بولنگ ہمیشہ بہتر رہی ہے۔ فضل محمود سے سرفراز نواز تک، اور عمران خان سے وسیم اکرم، وقاریونس سے شعیب اختر تک کئی شاندار بولر ہمیں میسر رہے۔ محمدآصف، محمد زاہد اور عامر جیسے بدقسمت بھی ملے جو بیماری یا اورکسی حرکت کی وجہ سے باہر ہو گئے اور سزا کاٹ کے واپس آئے تو اپنی بولنگ کا جوبن کھو چکے تھے۔ بلکہ پاکستان نے ان سے نچلے درجے کے بھی کئی ایسے بولر پیدا کیے جن کا جوڑکم ازکم ایشیا ئی کرکٹ ٹیموں میں مشکل سے نظر آتاہے۔ سپن بولنگ کے میدان میں بھی عبدالقادر اورمشتاق جیسے لیگ سپنر، اورثقلین مشتاق اور سعید اجمل جیسے آف سپنر سامنے آئے۔
لیکن ایسا بالکل نہیں کہ پاکستان نے کوئی بڑے بلے باز پیداہی نہیں کیے۔ حنیف محمد، جاوید میانداراورظہیر عباس سے لے کر انضمام الحق اور سعید انور، محمد یوسف جیسے شانداربلے باز بھی ہماری ٹیم کا حصہ رہے۔ لیکن آج کل بلے بازی کا معیار بہت نیچے چلا گیا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بلے بازی کے لحاظ سے آخری شاندار ٹیم وہی تھی جس میں انضمام، اعجازاحمد، سلیم ملک، سعید انور، عامر سہیل وغیرہ تھے۔ بلکہ بقول مدثر نذر نوے کی دہائی کی پاکستانی کرکٹ ٹیم ہماری تاریخ کی سب سے بہترین ٹیم تھی۔ اس کےبعد بھی کئی برس تک پاکستان کو بیٹنگ میں اس طرح کوئی زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں رہا۔ یاد رہے کہ مصباح الحق جیسے بلے باز کو، جس نے بعد میں ایک مدت تک ہماری بیٹنگ لائن میں مرکزی کردار ادا کیا، اپنے عروج کے وقت قومی ٹیم میں بہت دیر کے بعد جگہ ملی۔ لیکن اس کے بعد بلے بازی کاایک زوال ہے اور جاری ہے۔
اس کے کئی اسباب میں سے ایک بنیادی سبب ٹیپ بال کرکٹ کا زیادہ رواج پانا اورہارڈ بال یعنی کرکٹ بال سے کھیل کا بتدریج کم ہوتے جانا ہے۔ اور ایسا کیوں ہوا؟ اس کی بنیادی اور بڑی وجہ اس روایتی طرز کی کرکٹ کے لیے گراؤنڈز کا نہ ہونا اور اسکولوں کی سطح پر کرکٹ کا کم ہو تے ہوتے ختم ہو جانا ہے۔ ہارڈ بال کرکٹ کا سامان بھی کافی مہنگا ہے، متوسط اورغریب طبقات جو دو وقت کی روٹی کے چکر میں پھنسے رہتے ہیں، بچوں کو ہارڈ بال کرکٹ کامہنگا سامان خرید کر دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے، یہ کام اسکولوں اوراداروں کی سطح پر ہی ممکن ہے۔ ٹینس بال کرکٹ تو اس کے مقابلے میں بہت سستی ہے اوراس کے لیے باقاعدہ میدان نہ بھی ہو توآپ گلی میں یا گھر میں بھی کھیل سکتے ہیں۔
یہ ٹیپ بال کرکٹ پہلے بھی کھیلی جاتی تھی لیکن ہائی اسکول کی سطح پر ہارڈ بال کی کرکٹ ٹیمیں بھی ہوتی تھیں اور ان میں سالانہ مقابلوں کے ساتھ ساتھ سارا سال دوستانہ میچ بھی ہوتے رہتے تھے۔ ان ٹیموں میں کئی لڑکے بہت اچھی کرکٹ کھیلتے تھے بلکہ ان میں سے کچھ مقامی کلبوں کی جانب سے بھی کھیلتے تھے اور ہم اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ مل کربہت شوق سے ان کے میچز دیکھنے جایا کرتے تھے۔ کالج کی سطح پر بھی کرکٹ کھیلی جاتی تھی اگرچہ اس کا زوال شروع ہو چکا تھا جو میرے خیال میں اب یونیورسٹیوں تک کو نگل چکا ہے۔ یہ نوے کی دہائی کا پہلا نصف تھا اور مجھے یاد ہے ہم جمعہ کے روز گاؤں سے کافی دور فتح جنگ شہر میں ہارڈ بال کرکٹ کے میچ دیکھنے جاتے تھے۔ مقامی کلبوں میں کئی شاندار کھلاڑی کھیلتے تھے۔ کلب کی سطح پر اب بھی کچھ ٹیمیں موجود ہیں لیکن اسکولوں کی کرکٹ ٹیمیں اب بہت ہی کم رہ گئیں اور ان کا معیار بھی وہ نہیں رہا۔
اس کی ایک بڑی وجہ آبادی کا بڑھنا اور اسکولوں کے میدانوں کا سمٹنا ہے۔ نجی اسکول پانچ پانچ مرلے کی عمارتوں میں قائم ہونے لگے اور پرانے اسکولوں کے کشادہ میدان بھی نئی کلاسوں کی ضرورتوں کے پیش نظر تعمیرات کی نذر ہوتے گئے۔ اسکولوں کے نجی شعبے میں ترقی کی حوصلہ افزائی توکی گئی لیکن اس کے لیے کوئی اصول و ضوابط نہ بنائے گئے۔ اسکولوں کا کیا رونا کہ اس وقت کئی بڑی اورنامور نجی یونیورسٹیوں کے پاس بھی کھیل کے میدان نہیں ہیں۔ ہزاروں لاکھوں طلبہ کے لیے چند سوگز کے میدان نما لان ہیں جن میں وہ ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے ہوتے ہیں، بیچ بیچ میں کہیں کہیں چند منچلے ریکٹ اٹھائے بیڈمنٹن یا بلا اٹھائے کرکٹ کھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک اور سبب یا نتیجہ کہیں کہ ٹینس بال کرکٹ میں جوئے اور پیسے کا عمل دخل بڑھتا گیا ہے۔ ٹینس بال کرکٹ نے بولر تو پیدا کیے لیکن بلے باز پیدا کرنا اس کرکٹ کے بس کی بات نہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ اور ون ڈے میں توواقعی اچھی خاصی تکنیک اوربہترین کرکٹر کی ضرورت ہوتی ہے یہاں تو ٹی 20میں ہمارے پاس وہ بلے بازنہیں رہے جو تیز ی سے سکور کرسکیں اور بڑی ہٹیں لگا سکیں۔ اس زوال کی بہترین مثال ٹیپ بال کے مشہور کھلاڑی آصف علی کی ہے، جو 58 انٹرنیشل ٹی 20میچوں میں ایک ہی میچ میں قابلِ ذکر کارکردگی دکھا سکے، وہ بھی 41رنز کی اننگز تھی جس کے بعد وہ راتوں رات ہیرو بن گئے۔ سنا ہے آج کل پھر ٹیپ بال کرکٹ میچ کھیلتے پائے جاتے ہیں۔
یعنی ہم نہ روایتی کرکٹ کے قابل رہے، نہ جدید کے۔ انگلینڈ کرکٹ کا موجد ہے، ان سے بڑھ کر روایتی کرکٹ کا طرفدار اور چاہنے والا کون ہوگا لیکن چند برس قبل ٹی 20کی مقبولیت کے بعد انھوں نے اپنی کرکٹ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا فیصلہ کیا اور سب کچھ بدل کے رکھ دیا۔ انھوں نے ایسے تباہ کن بلے بازپیدا کیے جو اس وقت دنیا بھر کی لیگز میں چھائے ہوئے ہیں۔ ہمارا پی ایس ایل جوٹیلنٹ کی تلاش اورتربیت کا ایک اچھا ذریعہ ہے، اس میں بھی توجہ بولرز کی جانب ہی رہتی ہے کہ یہ آسانی سے بغیر محنت کیے مل جاتے ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ اب بولنگ کےبھی حالات کچھ اچھے نہیں ہیں۔ پی ایس ایل میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے چند نوجوان بلے بازوں کوحالیہ دنوں میں قومی ٹیم میں شامل کیا جن کی نیوزی لینڈ کی کمزور سی ٹیم کے خلاف قلعی کھل گئی، بلکہ ان کے مقابلے میں فخر زمان بریڈ مین دکھائی دیا۔
یہ جو ٹی 20میں7 ویں اوور سے 15 ویں اوور کے درمیان بننے والے رنز کے حوالے سے پاکستان کے آخری درجوں میں ہونے کا ذکر ہو رہا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی بیٹنگ کا زوال ہے۔ اس میں بہتری لانے کا واحد طریقہ طویل مدتی منصوبہ بندی کے ذریعے نچلی سطح پر ہارڈ بال کرکٹ کا فروغ ہے، خاص طور پر اسکولوں کی سطح پر کرکٹ کے سامان اورمیدانوں کی فراہمی بہت ضروری ہے۔ اکیڈمیوں کے ذریعے آپ بہت بڑے اور زیادہ کرکٹر پیدا نہیں کر سکتے۔ عام ٹیلنٹ بے حساب ہوتا ہے اورنچلی سطح پرچھپا ہوا ہوتا ہے، اکیڈمی تک تو چند لوگ ہی رسائی حاصل کر پاتے ہیں۔ ہم نے کرکٹ کے لیے قومی کھیل ہاکی سمیت سب کھیلوں کو نظر اندازکیا۔ پھرٹیسٹ کرکٹ اور ون ڈے میں بری طرح زوال کا شکارہوئے، مستقبل میں شاید ٹی 20کی بھی کمزور ترین ٹیموں میں شمار کیے جانے لگیں۔