ہر سال یکم مئی کو دنیا بھر میں مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد مزدوروں کو ان کے حقوق فراہم کرنا ہے مگر اب بھی بہت سے مزدور ایسے ہیں جن کے حقوق کا احترام تو درکنار ان کی محنت کو بھی مشکل سے ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں
None found
مزدوروں کی جب بھی بات آتی ہے ہر کسی کے ذہن میں ہمیشہ مرد مزدور کی تصویر ہی بنتی ہے۔ اس حقیقت کو بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے معاشرے میں مزدور مرد آج بھی اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں اور جہاں مرد بھی اپنے حقوق حاصل کرنے سے قاصر ہوں وہاں اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ خواتین مزدوروں کو کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین مزدوروں کے حقوق کا استحصال عام سی بات ہے۔
اس حوالے سے وی نیوز نے کچھ خواتین سے بات کی تو ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن ہوتا ہے یا ایسا کوئی دن بھی ہے جو ان کے حقوق کے لیے منایا جاتا ہے۔
حیدرآباد کے سکندر لغاری گاؤں سے تعلق رکھنے والی 32 سالہ روبینہ لغاری سندھی کڑھائی میں مہارت رکھتی ہیں اور ان کڑھائی کیے گئے سندھی پھولوں کے رنگوں کی طرح وہ بھی اپنی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بکھیرتی ہیں۔
انہوں نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کا سہارا بننے کے لیے گھر سے کڑھائی کا کام کرتی ہیں۔ ان کے 5 بچے ہیں اور ان کے شوہرکھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں اور گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے کام کرنا ضروری ہے۔
وہ کہتی ہیں کے ایک سندھی قمیض تیار کرنے میں کم از کم ایک ہفتہ درکار ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ شاید بہت آسان ہے لیکن محنت کے لحاظ سے میری اجرت بہت کم ہے کیوں کہ ایک قمیض کے مجھے 150 روپے ملتے ہیں اور ان پیسوں کے لیے پورا ہفتہ محنت کرنی پڑتی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ساری ہاتھ کی محنت ہوتی ہے اور مسلسل کڑھائی کرنے سے انگلیوں کے پور سن رہتے ہیں مگر کیا کروں مجبوری ہے کیونکہ پیٹ پالنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کو کبھی علم نہیں تھا کہ سندھی کڑھائی والی قمیضیں شہر میں اتنے مہنگے داموں میں بکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا مگر ان کی ایک جاننے والی نے انہیں بتایا کہ وہ جن کے لیے کام کرتی ہیں وہ ان قمیضوں کو آن لائن بیچ کر ایک قمیض کے 4 سے 5 ہزار روپے وصول کرتی ہیں۔
روبینہ لغاری نے کہا کہ ’مجھے جب پتا چلا تو میں نے اپنے استاد سے کہا کہ میری اجرت میں اضافہ کریں مگر انہوں نے جواب دیا کہ تمہاری محنت کے حساب سے تمیہں پیسے مل جاتے ہیں اور اتنے ہی پیسے بنتے ہیں تو میں یہ سن کر چپ ہو گئی کیونکہ مجھے تو کام کرنا تھا‘۔
ایک اور محنت کش سمیرا نے وی نیوز کے ایک سوال پر کہا کہ ہمیں تو نہیں پتا کے مزدوروں کا بھی کوئی عالمی دن ہوتا ہے۔
انہوں نے ایک بیجان ہنسی کے ساتھ کہا کہ ’مزدوروں کے کون سے حقوق ہوتے ہیں، ہمیں تو بس کام کرنا ہے اور گھر چلانا ہے ویسے بھی یہ سب دن ہم جیسے لوگوں کے لیے نہیں ہوتے بلکہ ہمارے لیے تو ہر دن ایک جیسا ہی ہوتا ہے‘۔
شگفتہ کی عمر 26 سال ہے اور وہ بھی ایک ہوم بیسڈ ورکر ہیں۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے شگفتہ نے بتایا کہ ان کا تعلق روالپنڈی دھمیال سے ہے اور وہ ایک این جی او کے لیے جوس اور کولڈ ڈرنک کے ساتھ ملنے والے پائپس کو اکٹھا کر کے مختلف ہینڈی کرافٹس بناتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ کام انہوں نے اپنی والدہ سے سیکھا تھا۔ چونکہ ان کا تعلق ملتان سے ہے اس لیے وہاں ہر گھر میں خواتین اس طرح کے کرافٹس کی ماہر ہیں اور ان کو بچپن سے ہی یہ سب آتا ہے۔
شگفتہ نے کہا کہ ’میں سب سے زیادہ ہاتھ والے پنکھے بناتی ہوں کیونکہ یہ گرمیوں میں سب سے زیادہ بک جاتے ہیں مگر مجھے معاوضہ میری محنت سے بہت کم ملتا ہے۔‘
انہوں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ وہ 2 بچوں کی ماں ہیں اور ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے اور وہ ماہانہ 4 سے 5 ہزار روپے کما لیتی ہیں مگر ان کے ہاتھ کے بنے ہینڈی کرافٹس شہر کی اچھی مارکیٹس میں مہنگے داموں میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں ملنے والا معاوضہ ان کی محنت سے بہت کم ہوتا ہے۔
شگفتہ نے کہا کہ ’مجبوری نہ ہوتی تو کبھی بھی کام نہ کرتی کیونکہ مہینہ بھر دن رات محنت کے بعد چند ہزار روپے ہی ملتے ہیں لیکن میرے لیے وہ بھی بیحد اہم ہیں اس لیے میں ناشکری نہیں کرتی‘۔
محنت کش ہونا اور پھر اقیلت سے تعلق رکھنا کسی بھی خاتون کے لیے دوہری مشکلات کا سبب ہوسکتا ہے اور ایسی خواتین کے لیے کام کرنا عموماً آسان نہیں ہوتا۔
ایک ایسی ہی خاتون راولپنڈی پنڈورہ کی رہائشی 38 سالہ فرزانہ ہیں جو کرسچن برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے فرزانہ نے بتایا کہ وہ اسلام آباد سیکٹر آئی 8 میں مختلف کوٹھیوں میں کام کرتی ہیں۔
فرزانہ کی 3 بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جو سب شادی شدہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں بہت پہلے ان کے شوہر نے ان کو طلاق دے دی تھی اور بیٹا اپنی بیوی کے ساتھ الگ رہتا ہے اور بیٹیاں بھی اپنے اپنے گھروں میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں پچھلے 10 سال سے کام کر رہی ہوں تا کہ اپنا گزارا کر سکوں، خدا نے ابھی تک ہمت دی ہوئی ہے کہ خود کما کر کھا سکوں، بیٹا اپنی مرضی سے مہینوں بعد کچھ پیسے دے دیتا ہے لیکن میں نہیں چاہتی کہ میں اس پر بوجھ بنوں اس لیے اکیلی رہتی ہوں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ روزانہ 3 گھروں کا کام کرتی ہیں اور مہینے بھر کے 20 سے 25 ہزار روپے کما لیتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کرسچن ہو کر مسلمانوں کے گھر کام کرنا آسان نہیں ہوتا اور وہ بہت بار بہت تکلیف دہ مراحل سے گزری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں ہر گھر میں صفائی کرتی ہوں اور ایک گھر کے برتن بھی دھوتی ہوں لیکن سب نے میرا کپ، پلیٹ اور گلاس الگ رکھا ہوا ہے اور مجھے اس کے علاوہ کسی برتن میں کھانے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ کبھی غلطی سے کسی دوسرے برتن میں کھا لیں تو میڈم صاحبہ بہت باتیں سناتی ہیں۔ ایک واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک بار جب بھولے سے انہوں نے ایک گلاس میں پانی پی لیا تھا تو مالکن نے وہ گلاس پھینک دیا تھا۔
گھریلو کارکنوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک این جی او ہوم نیٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 20 لاکھ کے قریب ہوم بیسڈ ورکرز ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے جو زیادہ تر گارمنٹس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ہوم نیٹ پاکستان کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ام لیلیٰ اظہر نے بتایا کہ ان کی این جی او نے خواتین ہوم بیسڈ ورکرز، ڈومیسٹک ورکرز اور فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین کے لیے قانون سازی کے لیے کام کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ خواتین سے کام زیادہ لیا جاتا ہے اور جب اجرت کی بات آتی ہے تو ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔
ام لیلیٰ نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ وہ ایک قومی پالیسی بنائے جس پر تمام صوبوں میں عملدارآمد کیا جائے جس کے بعد حکومت کو چاہیے کہ چیک اینڈ بیلینس کا عمل بھی رکھے تاکہ کسی بھی طرح گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے حقوق کو پامال نہ کیا جا سکے کیونکہ زیادہ تر خواتین اتنی پڑھی لکھی نہیں ہوتیں جس کے باعث ان سے اپنے مطابق کام لیا جاتا ہے اور اجرت کے معاملے میں ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا جاتا۔