ماہر فلکیات کی بین الاقوامی ٹیم نے زمین کے قریب شہاب ثاقب کی دریافت کا اعلان کیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ مستقبل میں شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکراؤ کے امکانات بہت کم ہیں۔
مقامی اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اے پی سیون نامی شہاب ثاقب تقریباً 1.5 کلو میٹر (0.9 میل) چوڑا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شہاب ثاقب اُس علاقے سے دریافت کیا گیا جہاں سورج کی چمک کی وجہ سے اشیا کو تلاش کرنا مشکل ہورہا ہے۔
ماہرین نے جدید ٹیکنالوجی کی ویکٹر بلانکو نامی دوربین کا استعمال کرتے ہوئے شہاب ثاقب کو دریافت کیا، ماہرین کا کہنا تھا کہ نیا دریافت ہونے والا شہاب ثاقب زمین کے قریب مزید دو شہاب ثاقب کے قریب پایا گیا تھا۔
کارنیگی ادارہ برائے سائنس کے ماہر فلکیات اسکاٹ شیپارڈ نے بتایا کہ اے پی سیون نامی شہاب ثاقب کا مدار زمین کے گرد ہونے کی وجہ سے یہ زمین کے لیے زیادہ خطرناک ہے لیکن مستقبل میں اس کے زمین کے ساتھ ٹکرانے کے بہت کم امکانات ہیں۔
زمین کے گرد گھومنے والی شے زمین کیلئے تب خطرہ بنتی ہے جب ان کا رخ کشش ثقل ( گریوٹینشنل فورس) اور سیاروں کی وجہ سے آہستہ آہستہ تبدیل ہوتا ہے، اس لیے یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ زمین کے گرد گھومنے والے شہاب ثاقب کتنے خطرناک ہیں۔
فلکیات کے حوالے سے امریکی ریسریچ گروپ نیرلیب نے بتایا کہ حالیہ شہاب ثاقب پچھلے 8 سالوں سے دریافت ہونے والی سب سے بڑی دریافت ہے جو مستقبل میں زمین کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
ای پی سیون 2022 نامی شہاب ثاقب اپنے موجودہ مدار میں رہتے ہوئے سورج کے گرد چکر لگانے میں 5 سال کا وقت لگتا ہے، جو زمین کے قریب ترین مقام پر کئی ملین کلومیٹر دور رہتا ہے۔
ماہر فلکیات اسکاٹ شیپارڈ نے بتایا کہ ’ اس وجہ سے شہاب ثاقت زمین کے لیے کم خطرناک ہے، لیکن اس کے ٹکرانے کی صورت میں شہاب ثاقت زمین پر خوفناک صورتحال پیدا کرسکتا ہے۔
ایک کلو میٹر سے زائد چوڑے 850 سے زائد شہاب ثاقب سمیت تقریباً 30 ہزار شہاب ثاقب زمین کے اطراف پھیلے ہوئے ہیں، جنہیں ’این ای او‘ یعنی ’زمین کے قریب شے‘ یا ’نئیرارتھ آبجیکٹ‘ کا نام دیا گیا ہے، یہ تمام شہاب ثاقب اگلے 100 سالوں تک زمین کے لیے خطرہ نہیں ہے۔